ایک ایسے وقت میں جب خلیجی ریاست قطر پردیگر پڑوسی ملکوں کی طرف سے سخت دباؤ اور اس دباؤ کا نشانہ فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ بھی شکار ہے۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے بعد قطر اور دوسرے خلیجی ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی۔ یہ کشیدگی اپنے نقطہ عروج پر ہے کیونکہ سعودی عرب، متحدہ عرب
امارات، مصر اور بحرین سمیت سات ملکوں سے قطر سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں۔
قطری حکومت پر فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے محصورین کی مدد کرنے اور فلسطینی تنظیم حماس کی قیادت کو اپنے ہاں سیاسی شعبے کا دفتر قائم کرنے کا موقع دینے کی سزا دی جا رہی ہے۔
سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر اور متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش کے متنازع بیانات کے بعد مرکزاطلاعات فلسطین نے مبصرین سے یہ سوال پوچھا کہ آیا حماس کی قیادت کا قطر چھوڑ دینا خلیجی ملکوں کے مفاد میں ہے۔ کیا حماس کی قیادت کو قطر سے باہر نکالنے کے مطالبے پیچھے واقعی خلیجی ملکوں کی اپنی سوچ کار فرما ہے یا کوئی اور نادیدہ قوت یا قوتیں خلیجی ملکوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلا رہی ہیں۔
حماس کی قیادت کو قطر چھوڑنے کے لیے یہ دباؤ پہلی بارنہیں آیا۔ کچھ ایسے ہی اسباب کی بنا پر حماس کی قیادت کو اردن سے بے دخل کیا گیا، شام میں خانہ جنگی کے باعث حماس کو اپنا دفتر وہاں سے ختم کرنا پڑا۔ حماس کے متعدد رہ نماؤں کو ترکی،مصر اور سعودی عرب سے دیس نکالا دیا گیا۔ حماس کی قیادت پر دباؤ کے باوجود جماعت نے اپنے بنیادی اصولوں اور مطالبات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ حماس کسی بھی دوسرے مسلمان یا عرب ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی قائل نہیں۔
حماس کے خلاف جس شیطانی سوچ کے تحت بے سروپا الزامات عاید کیے جا رہے ہیں وہ حماس کی پالیسی اور اس کی سیاست کو بدل سکتے ہیں اور نہ حماس کو کمزور کرسکتے ہیں۔ حماس صرف فلسطینی قوم کی قابض صہیونی ریاست کے تسلط سے آزادی اور فلسطین کے مقدس مقامات کے دفاع کے لیے لڑ رہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے تجزیہ نگار صلاح الدین العواودہ نے کہا کہ عرب ممالک کو بیرون ملک مقیم حماس کی قیادت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی سازشوں اور ان کے نتائج کا ادراک کرنا ہوگا۔
اس سوال پرکہ آیا خلیجی ملکوں کو حماس سے کوئی خوف یا خطرہ لاحق ہےالعواودہ کا کہنا تھا کہ خلیجی ملکوں کی قیادت بہ خوبی جانتی ہے کہ حماس سے انہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں اور نہ ہی حماس ان ملکوں کے اندرونی امور میں دخل اندازی کررہی ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی ایسی بیرونی قوت موجود ہے جو خلیجی ملکوں کو حماس کے گرد گھیرا تنگ کرنے پر قائل کرنے اور حماس کے خطرے کا خوف طاری کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس نہ صرف فلسطین میں اپنی مضبوط جڑیں رکھتی ہے بلکہ تمام عرب ممالک میں بڑی تعداد میں حماس کے حامی موجود ہیں۔ ایسے میں حماس کو دیوار سے لگانا اتنا آسان نہیں۔ لمحہ موجود میں عرب اور خلیجی ممالک کی ذمہ داری تو حماس کو ہرطرح سے مضبوط کرنا تھا مگر افسوس یہ ہے کہ خلیجی ممالک غیروں کےاشاروں پر حماس کی قیادت پر قطر چھوڑںے کے لیے دباؤ ڈال رہےہیں۔