چهارشنبه 30/آوریل/2025

’القدس‘ پرناجائز تسلط کے 50 سال، اسرائیل اور کیا چاہتا ہے؟

جمعرات 1-جون-2017

بہ ظاہر تو اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس پر قبضے کے لیے اپنے خون خوار بھیڑیے جون 1967ء کی جنگ میں عرب ممالک کی اجتماعی شکست کے دوران داخل کیے مگر حقیقی معنوں میں بیت المقدس پر اسی وقت صہیونیوں نے غاصبانہ تسلط قائم کرلیا تھا جب برطانوی اور عالمی سامراج کی سازشوں کے نتیجے میں سنہ 1922ء کو خلافت عثمانیہ کا سقوط کیا گیا۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہی ارض فلسطین اور بیت المقدس میں یہودیوں کے مکروہ حربوں کا بہ تدریج نقطہ آغاز تھا۔ سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی اجتماعیت کا شیرازہ بکھرگیا، صہیونی طاقتوں نے جو پہلے ہی اس موقع کی تلاش میں تھیں مکھیوں کی طرح ارض فلسطین پر یلغار کردی اور ارض فلسطین پر صہیونی قبضے کا وہ خنجر گھونپا گیا جو آج تک جسد فلسطین میں لگے گھاؤ کو مزید گہرا کررہا ہے۔

چونکہ خلافت عثمانیہ کے انہدام کے بعد فلسطین پر برطانوی سامراج نے تسلط جمایا۔ تاج برطانیہ ہی صہیونیوں کے ارض فلسطین میں آنے اوریہویوں کو بسانے کا سہولت کار بنا۔

چنانچہ سنہ 1948ء کو جب برطانیہ نے فلسطین سے اپنا قبضہ ختم کرنے کا اعلان کیا اس کے ساتھ ہی خون خوار صہیونی کتوں کو ارض فلسطین کو نوچنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے سیاسی اور عسکری خلا کا فایدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں پر قیامت ڈھا دی۔ فلسطین سے برطانیہ کا قبضہ ختم ہونا دراصل عربوں اور یہودیوں کے درمیان جنگ کے مترادف تھا۔

سنہ 1967ء کی جنگ میں بیت المقدس پرقبضہ اصل میں صہیونیوں کی توسیع پسندی کی مہم کا ایک اگلا قدم تھا۔ قبضہ کرنے کے بعد ابلاغی، سیاسی اور دیگر تمام محاذوں سے بیت المقدس کو یہودیوں کا شہر اور عبرانی مذہبی تاریخی و تہذیبی مرکز قرار دے کر اس میں جنگی بنیادوں پر یہودیوں کو بسانے کے لیے تعمیرات کا آغاز کیا گیا۔

آج اس شہر میں بسنے والے فلسطینی انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔ صہیونی ریاست نے اہل فلسطین پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔ ان کے گھر مسمار کیے جا رہے ہیں۔ وہاں پر رہنے والوں کو بھاری جرمانے کرکے انہیں اس کی قیمت چکانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے  تاکہ فلسطینی آبادی کو بیت المقدس سے نکل جانے پر مجبور کیا جائے۔

آفت زدہ شہر

صہیونی ریاست بیت المقدس پر ناجائز قبضے کی 50 ویں سالگرہ کو ’سلور جوبلی‘ کے طورپر منا رہی ہے۔ مگر فلسطینی ماہرین و مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت بیت المقدس ’آفت زدہ‘ شہر کا منظر پیش کرتا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار جمال عمرو کا کہنا ہے کہ ہمیں برملا طور پریہ اعتراف کرنا چاہیے کہ بیت المقدس اس وقت جن حالات سے گذر رہا ہے وہ ایک نیا نکبہ اور تاریخ کے ارکان کی تکمیل ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیت المقدس کی حقیقی کیفیت کا اداراک اور اعتراف ہی ہمیں بیماری کے ضروری علاج کی تشخیص میں مدد دے سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کو کسی دور میں مسلم امہ کی سلامتی کا معیار سمجھا جاتا تھا اور یہ شہر عالم اسلام کا پیرو میٹر تھا۔ اس کے ضعف اور کمزوری کا عالم دیکھا نہیں جاتا۔

جامعہ بیت لحم میں عالمی قانون کے استاد پروفیسر عبداللہ ابو عید کہا کہنا ہے کہ عالمی قوانین کی رو سے نہ صرف بیت المقدس بلکہ پورا فلسطین صہیونی ریاست کے ناجائز تسلط کے نیچے ہے۔ جو بات القدس کے بارے میں کہی جائے گی وہ پورے فلسطین پر منطبق ہوتی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست نے بیت المقدس اور فلسطین کے حوالے سے تمام عالمی قراردادوں کو دیوار پر دے مارا ہے۔ عالمی قوانین کی رو سے اسرائیل سرزمین فلسطین سے سیاسی اور معاشی فواید سمیٹنے کا مجاز نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بیت المقدس پر اسرائیل کا عملی تسلط تو قائم ہےمگر قانونی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ صہیونی ریاست کسی عالمی قاعدے اور قانون کی پابند نہیں۔

القدس کی ضرروت

بیت المقدس کےامور کے ماہر ابوعمرو کا کہنا ہے کہ اس وقت پوری مسلم امہ میں بیت المقدس کے تقدس کی بحالی کی ضرورت ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل سے مذاکرات میں آخری درجہ نہیں بلکہ سب سے پہلا درجہ ملنا چاہیے۔ اگر بیت المقدس پر اسرائیل کا ناجائز تسلط برقرار رہتا ہے تو کسی قسم کے مذاکرات لا یعنی تصور کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اور پوری فلسطین قوم کے نمائندہ اداروں کو مل کربیت المقدس اور یہاں کے مستقل فلسطینی باشندوں کے حقوق کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھائیں۔ اسرائیل سے کسی بھی قسم کی مصالحت کی صورت میں بیت المقدس کو نظر انداز کرنے کا کوئی جواز قابل قبول نہیں ہوگا۔

ابو عمر کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست بیت المقدس پر اپنا ناجائز تسلط مستحکم کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں عرب اور مسلمان ممالک کی طرف سے بیت المقدس کی بہبود کے لیے ملنے والی امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔

قیادت کا فقدان

فلسطینی تجزیہ نگار ابوعید کا کہنا ہے کہ قضیہ فلسطین کے حل اور بیت المقدس پر اسرائیلی تسلط ختم کرنے کے لیے جس بیباک، جرات مند اور بہادر قیادت کی ضرورت ہے فلسطینی قوم ایسی اولوالعزم قیادت کے فقدان کا شکار ہے۔

ان کاکہنا ہے کہ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ موجودہ فلسطینی قیادت کا بیت المقدس اور اس کے مستقبل کا کوئی پلان ہی نہیں جب کہ صہیونی ریاست نے بیت المقدس پر ناجائز قبضے کی توسیع کے لیے سنہ 2050ء تک کا منصوبہ تیار کررکھا ہے۔ بیت المقدس کی پنجہ یہود سے آزادی کے لیے کوئی لائحہ عمل نہ ہونا فلسطین میں قیادت کے فقدان کا واضح ثبوت ہے۔

مختصر لنک:

کاپی