شنبه 03/می/2025

غزہ کی مسجد عمری جس سے مسجد اقصیٰ کی خوشبوآئے!

پیر 29-مئی-2017

فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں بڑی بڑی مساجد ہیں جن میں ایک ’مسجد العمری‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ویسے تو پورا سال اس مسجد میں پانچوں نمازوں میں بڑی تعداد میں نمازی اللہ کے سامنے حاضری دینے آتے ہیں مگر ماہ صیام کے موقع پر اس مسجد میں ہرعمر اور ہرطبقے کے فلسطینی نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔

وسطی غزہ کے تمام قصبوں اور اطراف کے مقامات سے شہری نہ صرف پانچوں نمازوں، نماز جمعہ اور تراویح کے لیے مسجد العمری میں پہنچتے ہیں بلکہ نماز تہجد کے لیے بھی یہاں پر بڑی تعداد میں روزہ داروں کو دیکھا جاتا ہے۔

فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ مسجد عمری میں نماز ادا کرنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ مسجد اقصیٰ میں نماز تراویح اور دیگر نمازوں کی ادائی سے محروم رہنے والے فلسطینی مسجد العمری سے مسجد اقصیٰ کی خوشبو محسوس کرتے ہیں۔

غزہ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ اگرانہیں اسرائیلی پابندیوں کا سامنا نہ ہوتا توہ  ماہ صیام کے دوران زیادہ سے زیادہ نمازیں مسجد اقصیٰ میں ادا کرتے مگر ان کی راہ میں اسرائیلی فوج اور اس کے نام نہاد سیکیورٹی اداروں کی کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہیں۔

اب چونکہ غزہ کے شہری نمازوں کی ادائی کے لیے قبلہ اول میں تو نہیں جاسکتے۔ اس لیے وہ غزہ کی ان بڑی مساجد کا قصد کرتے ہیں جو مسجد اقصیٰ کی طرز پربنائی گئی ہیں۔ انہی میں مسجد العمری بھی ہے۔ یہ مسجد غزہ کے وسط میں واقع ہے۔ 4100 مربع میٹر رقبے پر پھیلی مسجد العمری میں ہر سال ماہ صیام میں نماز تراویح کے موقع پر 4500 فلسطینی نمازی موجود ہوتے ہیں۔

مسجد العمری اور ماہ رمضان

غزہ کے شہریوں کو مسجد العمری کے ساتھ خاص لگن ہے۔ عمر رسیدہ افراد بھی یہاں پر چل نماز کی ادائی کے لیےآتے ہیں۔ کئی نمازی ایسے ہیں جو اپنا بیشتر وقت مسجد العمری مں اعتکاف میں گذارتے ہیں۔ ان میں 86 سالہ الحاج ابو احمد گذشتہ آٹھ سال سے مسلسل پورے ماہ صیام کے دوران مسجد العمری میں اعتکاف کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ مسجد العمری میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں غیرمعمولی سکون ملتا ہے۔ مسجد میں بہت زیادہ رش ہونے کے باوجود وہ باقاعدگی سے تلاوت قرآن کریم جاری رکھتے ہیں۔ نمازیوں کا ھجوم ان کی تلاوت میں خلل نہیں ڈالتا۔

مسجد العمری کے مستقل نمازی 72 سالہ الحاج ابو ایاد نماز ظہر سے قبل ہی مسجد العمری میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی تلاوت کا سفرشروع ہوتا ہے اور مغرب کی اذان سے چند منٹ قبل افطاری کے لیے گھرکو لوٹتے ہیں۔ افطاری کے فوری بعد دوبارہ مسجد آتے ہیں اور تراویح کے بعد واپس گھر لوٹتے ہیں۔

جب الحاج ایاد سے پوچھا گیا کہ ان کی دلی تمنا کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ میری تمنا یہ ہےکہ میں اسی طرح مسجد میں آتا رہوں اور اسی سفر میں اللہ سے ملاقات ہوجائے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف میں نہیں بلکہ تمام نمازی مسجد العمری میں مسجد اقصیٰ کی خوشبو محسوس کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسجد العمری میں ماہ صیام گذارنے کا اپنا ہی مزہ ہے، جوکسی اور مسجد میں شاہد ہی ہو۔

مسجد العمری کی تاریخی وتہذیبی اہمیت

مسجد العمری اپنے نام سے بتاتی ہے کہ اس کی نسبت خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی کی طرف ہے۔ اس کا دوسرا نام مسجد الکبیر ہے۔ وہ اس لیے یہ غزہ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔

کسی زمانے میں یہ غیرمسلموں کا مذہبی مقام تھا۔ بازنطینی دور میں پانچوی صدی عیسوی میں اسے چرچ میں تبدیل کیا گیا۔ سات سو عیسوی میں فلسطین کے اسلامی قلمرو میں شامل ہونے کے بعد اسے مسجد میں تبدیل کیا گیا۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں اس مسجد کا تذکرہ کیا ہے اور اسے خوبصورت مسجد قرار دیا ہے۔ سنہ 1033ء میں علاقے میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں مسجد کا ایک مینار زمین بوس ہوگیا تھا۔

غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے فلسطینی کہتے ہیں کہ چونکہ انہیں مسجد اقصیٰ میں نمازوں کے لیے جانے سے روک دیا گیا ہے، اس لیے وہ مسجد العمری کو مسجد اقصیٰ کے بعد فلسطین کی دوسری بڑی مسجد سمجھتے ہیں۔ 70 سالہ الحاجہ ام حامد عبدہ کا کہنا ہے کہ وہ بھی نماز تراویح کے لیے مسجد العمری کو ترجیح دیتی ہیں۔ وہ مسجد اقصیٰ میں نہیں جاسکتیں اس لیے وہ مسجد العمری ہی کو مسجد اقصیٰ کا درجہ دیتی ہیں۔

مسجد اقصیٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے الحاجہ ام عبدہ آبدیدہ ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ میں مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائی سے محروم ہوں مگر میری دلی تمنا ہے کہ مجھے ایک بار قبلہ اول میں حاضری کا شرف نصیب ہوجائے۔

مختصر لنک:

کاپی