سنہ 1948ء میں فلسطین میں اسرائیل کی ناجائز ریاست کےقیام سےقبل اور اس کے بعد صہیونی تحریک نے ’نسل کشی‘ کے جس مجرمانہ فلسفے کی بنیاد پر اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا، فلسطینیوں پرڈھائے جانے والے مظالم اس کے گواہ ہیں۔
صہیونی تحریک کا یہ نسلی تطہیر ہی کا مجرمانہ اور مکروہ فلسفہ تھا جو آگے چل کر صہیونی ریاست کی ایک منظم پالیسی کی شکل میں سامنے آیا۔ غاصب صہیونیوں نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے نہ صرف قتل عام کا سہارا لیا بلکہ فلسطینیوں کی عزت و آبرو کا خوف ان کےدلوں میں ڈال کر انہیں ان کے وطن سے نکال باہر کیا گیا۔ سنہ 1948ء کو قیام اسرائیل کے وقت سیکڑوں بار فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام کیا اور ان کی نسل کشی کی مجرمانہ روش اپنائی گئی۔
اس کے ساتھ ساتھ عالمی رائے عامہ کو صہیونی ریاست کے حق میں ہموار کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔
ریاستی دہشت گردی
اسرائیل کا سابق وزیراعظم مناخیم بیگن جو متعدد بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہا۔ سنہ 1948ء سے قبل وہ ’اشٹیرن‘ نامی ایک جرائم پیشہ ملیشیا کا سربراہ تھا۔ اس نے اپنی کتاب ’بغاوت‘ میں اعتراف کیا ہے کہ قیام اسرائیل کے وقت صہیونی مسلح جتھوں نے فلسطینیوں کی اجتماعی نسل کشی کا جو طریقہ اپنایا اس سے یہ ریاستی دہشت گردی کا تاثر پیدا ہوا۔
تاہم مناخیم بیگن فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام کے لیے جواز بھی فراہم کرنے کی بھونڈی کوشش کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’اگر دیر یاسین میں صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام جیسے واقعات رونما نہ ہوتے تو اسرائیل کا قیام ممکن نہیں تھا۔ قیام اسرائیل کے لیے ہمیں فلسطینیوں کی لاشوں سے گذرنا تھا‘۔
مناخیم بیگن لکھتا ہے کہ صہیونی مسلح تنظیموں نے ایک طرف فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے پوری قوت استعمال کرنا شروع کر رکھی تھی تو دوسری طرف برطانوی ذرائع ابلاغ ریڈیو اور اخبارات کی مدد سے فلسطینیوں پران کی عزت وناموس کی پامالی کا خوف ڈالنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے جاتے تھے۔ اس ابلاغی پروپیگنڈے کا مقصد فلسطینیوں کو اپنےگھر بار چھوڑ کرعلاقے صہیونیوں کے حوالے کردینے پرمجبور کرنا تھا۔
سوچا سمجھا قتل عام
فلسطینی تجزیہ نگار ولید الخالی نے اپنی کتاب’دیر یاسین‘ میں سنہ 1948ء میں مغربی بیت المقدس میں دیر یاسین قصبے میں صہیونیوں نے 219 فلسطینیوں کو بے رحمی کے ساتھ شہید کیا مگر اس واقعے کو فلسطینیوں کی عزت وناموس کی پامالی کے طور پر مبالغہ آرائی کی شکل دی تاکہ فلسطینی اپنی جان ومال اور عزت وآبرو بچانے کے لیے علاقے خالی کردیں۔ صہیونیوں کا یہ مکروہ حربہ کافی حد تک کارگر ثابت ہوا اور ہزاروں فلسطینی اپنی جان ومال اور عزت و آبرو بچانے کے لیے ھجرت پرمجبور ہوئے۔
فلسطینی مفکر اور دانشور ڈاکٹر عبدالستار قاسم نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے اسی سوال کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے کہا کہ صہیونیوں نے فساد فی الارض اور قتل وغارت گری کا فلسفہ اپنی مذہبی کتابوں تلمود اور تورات سے حاصل کیا اور وہ اپنی بقاءکے لیے فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘النکبہ‘ کے نتائج و اثرات کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صہیونی تحریک نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نسل پرستانہ اور نسل کشی کا فلسفہ اپنایا۔ فلسطین میں یہودی آباد کاری، توسیع پسندی، فلسطینیوں کی املاک پر غاصبانہ قبضے اور اس قبیل کے دیگر تمام جرائم کے پس پردہ نسلی تطہیر کا مجرمانہ فلسفہ کار فرما ہے۔
انہوں نے کہا کہ قیام اسرائیل کے وقت فلسطین پر برطانیہ کا غاصبانہ تسلط تھا۔ برطانوی سامراج کے پروردہ یہودی خون خوار دہشت گرد تنظیموں اشٹیرن، ارگون، لیحی، واٹزل اور فیالقھا نے سرزمین مقدس میں دسیوں بار فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام کیا۔ دیر یاسین، جبل الخلیل، الدوایمہ، شمالی فلسطینی شہروں حیفا، الطنطورہ اور ساحلی علاقوں میں فلسطینیوں کو نے دریغ انداز میں تہہ تیغ کیا۔
دیر یاسین کی مثال
دیر یاسین قصبے سے تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی مہاجر فہیم زیدان نے بتایا کہ اس قصبے میں صہیونیوں کے ہاتھوں جب قتل عام کیا گیا تو اس کی عمر 12 سال تھی۔ وہ اس قتل عام کا عینی شاہد ہے۔ مسلح صہیونی جتھے 9 اپریل 1948ء کو قصبے میں داخل ہوئے۔ قصبے کے تمام مردو زن کو ان کے گھروں سے باہر نکالا۔ انہوں نے ایک بوڑھے نابینا فلسطینی کو پہلے گولی مار کرشہید کیا تو اس کے گھر میں آہ وبکا شروع ہوگئی۔ اس کے بیٹے بیٹیاں رونے لگے۔ صہیونیوں نے باپ کے غم میں رونے والی ایک بیٹی کو گولی مار کر شہید کردیا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے محمد کو بھرے مجمع میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ جب ماں نے بیٹےاور بیٹی کو شہید ہوتے دیکھا تو وہ ان کی لاشوں سے لپٹ کر رونے لگی۔ ایک شیر خوار بیٹی اس نے اٹھا رکھی تھی۔ صہیونیوں نے آگے بڑھ کر ان دونوں کو بھی شہید کردیا۔
فہیم نے بتایا کہ صہیونیوں نے اجتماعی قتل عام کے دوران اسے بھی گولیاں ماریں تاہم اس کی زندگی باقی تھی۔ اس لیے زخمی ہونے کےبعد بھی وہ زندہ ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سنہ 1948ء کے علاقوں کی فلسطینی آبادی کو زبردستی بے دخل کرنے کے لیے صہیونیوں نے’ٹرانسفر‘ [تبدیلی] کی اصطلاح استعمال کی مگر اس کا اصل مفہوم فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا جائے گا۔ صہیونیوں نے طے شدہ منصوبے اور پالیسیی کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی کی جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔