چهارشنبه 30/آوریل/2025

شہید اور اسیروں کی ماں، عزیمت اور صبرو استقلال کا پہاڑ!

بدھ 17-مئی-2017

فلسطینی قوم شہیدوں، غازیوں، اسیروں اور جانثاروں کی قوم کہلاتی ہے۔ شاید ہی ایسا کوئی ایک خاندان ہوجو کسی شہید کا امین اور کسی اسیر کی رہائی کا منتظر نہ ہو مگران بے شمار دلسوز واقعات میں ’ ام خنسا‘ کی دلخراش داستان الگ انفرادیت رکھتی ہے۔ وہ بہ یک وقت شہیدوں ،غازیوں اوراسیروں کی ماں ہیں۔ ’سامر العیساوی‘ المعروف ’ام خنسا‘ صبرو استقامت اور استقلال کا پہاڑ ہیں۔ زندگی میں جتنے دکھ انہوں نے جھیلے ہیں، شاید ہی کسی دوسرے کے مقدر میں آئے ہوں مگر وہ تمام ترصہیونی مصائب وآلات برداشت کرنے کے بعد بھی عزم استقامت اور صبرو استقلال کا پہاڑ ہیں۔ انسان ہونے کے ناطے ان کا دل بھی پسیج جاتا ہے۔ وہ اس پیرانہ سالی میں تن تنہا گھر پر زندگی گذار رہیں۔ ایک بیٹا شہید ہوچکا، چار بیٹے اور ایک بیٹی اس وقت صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ ام خنساء کی کل کائنات یہی چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین نے فلسطین کی اس عظیم ’ماں‘ کے حالات وخیالات پر مشتمل ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔

ام خنسا کا ایک بیتا صہیونی دہشت گردی میں شہید ہوا۔ یوں وہ شہید کی ماں کہلائیں۔ اس کی مصائب وآلام کا آغاز سنہ 1948ء سے ہوتا ہے۔ انہوں نے ارض فلسطین میں قابض صہیونی ریاست کے قیام کے وقت فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نہ صرف آنکھوں سے دیکھے بلکہ ان پر مظالم برتے گئے۔ صہیونی ریاست کے قیام کے وقت جبرو تشدد کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کے ساتھ ام خنساء کو بھی ھجرت کرنا پڑی۔ تب ام خنساء ایک کم عمر  بچی تھی۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں جب اپنے گھر کے خالی کمرے، ان میں رکھے بیٹوں کے کپڑے  اور بیٹوں کی تصاویر دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے مگر میں جلد ہی اس بات پرمطمئن ہوجاتی ہوں کہ میری اولاد ملک وقوم کے لیے کام آئی ہے۔ میرا ایک بیٹا فلسطین پر اپنی جان قربان کرکے سرخرو ہوا۔ ایک بیٹی شیریں اور چار  بیٹے اس وقت صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ ویران گھر دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کے لیےدست بہ دعا ہوتا ہے۔ اس امید کے ساتھ زندہ ہوں کہ اسرائیلی زندانوں میں قید بیٹوں کی شب تاریک کبھی تو ختم ہوگی۔

الحاجہ لیلیٰ عبید’ ام سامر العساویہ‘ اور ’ام خنسا‘ کے ناموں سے فلسطین بھر میں شہرت رکھتی ہیں۔

ام خنساء کے چار بیٹے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ اس کا ایک بیٹا رافت 1994ء میں مسجد ابراہیمی میں قتل عام کے خلاف احتجاج کے دوران 17 سال کی عمر میں صہیونی فوج کی اندھی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ رافت کی شہادت کے بعد اس کے بیٹوں مدحت، ،سامر، فراس اور شادی کو صہیونی فوج نے حراست میں لیا۔ اس کے بیٹوں کا لڑکپن اور جوانی سب صہیونی جیلوں میں گذری۔ حتیٰ کہ اس کی بیٹی’شیرین’ جو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے بھی صہیونی جیل میں پابند سلاسل ہے۔

فلسطینی اسیران کی بھوک ہڑتال کے بارے میں بات کرتے ہوئے ام سامر العیساوی نے بتایا کہ اسیران کے تمام مطالبات ہراعتبار سے بجا اور مبنی برحق ہیں۔

اگر اسیران علاج کی سہولیات کےلیے احتجاج کررہے ہیں تو بہ حیثیت انسان انہیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ کیونکہ اسرائیلی زندانوں میں کینسر، امراض قلب، جگر اور کئی دائمی بیماریوں کے مریض پابند سلاسل ہونے کے ساتھ ساتھ صہیونی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کا سامنا کررہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں چار بیٹوں اور ایک اسیر بیٹی کی ماں نے کہا کہ اس نے الرملہ جیل کی اسپتال میں متعدد بار اپنے اسیر بیٹے سے ملاقات کی۔ میں نے دیکھا کہ سامر کو بنیادی نوعیت کی طبی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ تمام مریض اسیران کو صرف درد کش ادویات دی جاتی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ الرملہ نام نہاد اسپتال ہے جس میں اسپتال نام کی کوئی سہولت نہیں۔

ام خنساء نے بتایا کہ وہ گھر سے اپنے بیٹوں اور اسیر بیٹی کے لیے کپڑے تیار کرکے لے جاتی ہے مگر صہیونی انتظامیہ ان تک کپڑے نہیں پہنچاتے۔ سامر کو گذشتہ ایک سال سے کپڑے نہیں پہنچائے گئے۔ سامر کو انتظامی قید میں ڈالا گیا ہے۔ میں نے بار بار صہیونیوں سے استفسار کیا کہ سامر کا کیا قصور ہے کہ اسے بغیر کسی جرم کے قید میں رکھا ہوا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی