ایک ایسے وقت میں جب آئندہ ہفتے امریکی صدر اسرائیل پہنچ رہے ہیں، امریکا اور اسرائیل کے درمیان بیت المقدس کےحوالے سے ایک نئی کشیدگی بھی سامنے آئی ہے۔
اسرائیلی حکومت کے ایک سینیر عہدیدار نے ایک امریکی سفارت کار کے اس بیان پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بیت المقدس کی مغربی دیوار دریائے اردن کے مغربی کنارے کا حصہ ہے جس پر اسرائیل نے قبضہ کررکھا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ وہ توقع رکھتے ہیں واشنگٹن اپنے سفارت کار کے بیان کی وضاحت کرے گا۔
خیال رہے کہ اسرائیل پورے بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا ابدی دارالحکومت قرار دینے کا دعویٰ کرتا ہے تاہم بین الاقوامی برادری صہیونی ریاست کے دعوے کو درست نہیں مانتی۔ جہاں تک بیت المقدس کی مغربی دیوار کا تعلق ہے تو یہ جگہ یہودیوں کی مقدس ترین عبادت گاہ قرار دی جاتی ہے۔ اس دیوار پر اسرائیل نے سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضہ جمایا تھا۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 2 نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کی پیشگی تیاری کے لیے امریکی اور اسرائیلی عہدیداروں کا ایک مشترکہ اجلاس جاری تھا۔ اس اجلاس کے دوران اسرائیلیوں کو بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ بیت المقدس کی مغربی دیوار کا نجی طور پردورہ کریں گے۔ اس جگہ پر اسرائیل کے دعوے کی کوئی حیثیت نہیں۔ ٹرمپ مغربی دیوار میں آمد کے موقع پر بنجمن نیتن یاھو کو اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل کی دائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل سخت گیر حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے متضاد پیغامات بھیجتی رہی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل میں ڈیموکریٹس امریکی صدر کی نبست ری پبلیکن صدر کو تل ابیب کے زیادہ قریب سمجھا جاتا رہا ہے۔ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سابق صدر باراک اوباما سے بہت مختلف ثابت ہوں گے۔
ادھر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو کےدفترسے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی سفارت کار کے مغربی دیوار کو غرب اردن کا حصہ قرار دینے سے متعلق بیان پر تل ابیب کو دکھ پہنچا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سفارت کار کا بیان صدر ٹرمپ کی پالیسی کے منافی ہے اور اس سلسلے میں تل ابیب نے واشنگٹن سے رابطہ قائم کیا ہے تاہم وائیٹ ہاؤس کی طرف سے اس پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔