جمعه 15/نوامبر/2024

قبلہ اول پرجان نچھاور کرنے والا اردنی جانثار’الکسجی‘!

منگل 16-مئی-2017

حال ہی میں قابض صہیونی پولیس نے مقبوضہ بیت المقدس میں تاریخی باب السلسلہ کے قریب ایک اردنی شہری کو گولیاں مار کر شہید کردیا۔ قابض فورسز کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ اردن سے تعلق رکھنے والے محمد عبداللہ الکسجی نے چاقو کے وار سے ایک صہیونی پولیس اہلکار کو شدید زخمی کردیا تھا۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق محمد عبداللہ الکسجی نے اپنی جان قبلہ اول اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے قربان کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ دفاع قبلہ اول کے لیے جانثاروں کے سامنے کوئی جغرافیائی سرحدیں حائل نہیں۔ نہ صرف دوسرے عرب ممالک میں مقیم فلسطینی وطن واپسی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں بلکہ دیگر عرب شہری بھی قبلہ اول اور بیت المقدس پراپنی جان نچھار کرنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔

الکسجی نے اپنی شہادت کے ذریعے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وطن کی مٹی پر جان قربان کرنے میں دنیا کی کوئی طاقت حائل نہیں ہوسکتی۔

فلسطینی نژاد اردنی شہری محمد عبداللہ الکسجی کو گذشتہ ہفتے کو صہیونی پولیس نے بیت المقدس میں گولیاں مار کر شہید کردیا تھا۔

شہید کے اہل خانہ کے قابل ستائش تاثرات
محمد عبداللہ الکسجی جی بیت المقدس میں صہیونی پولیس کی وحشیانہ فائرنگ میں شہادت پرشہید کے اہل خانہ نے فخر کا اظہار کیا۔ شہید کے بھائی یوسف الکسجی نے کہا کہ ہمارے پورے خاندان کو فخر ہے کہ ہمارے خاندان کے ایک فرد نے بیت المقدس اور ارض وطن کی مٹی سے وفا کی ہے۔ انہوں نے شہید کا جسد خاکی صہیونی فوج کی جانب سے قبضے میں لیے جانے کی شدید مذمت کی اور شہید کی میت جلد از جلد ورثاء کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے شہید کے بھائی یوسف الکسجی نے کہا کہ الکسجی کو صہیونیوں کی طرف سے مشتعل کیا گیا۔ یوسف نے بتایا کہ اس کا بھائی ایک ہفتہ پیشتر بیت المقدس گیا۔ اس نے اسرائیل کا سیاحتی ویزہ حاصل کیا مگر گھر سے جاتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ وہ مسجد اقصیٰ میں عبادت کی سعادت کے لیے جا رہا ہے۔ یہ اس کا تیسرا دورہ بیت المقدس تھا۔

یوسف نے بتایا کہ جس روز اسے اسرائیلی پولیس نے بیت المقدس میں شہید کیا۔ اسی روز اس نے واپس عمان پہنچنا تھا۔ مگر شہادت اس کا مقدر تھی اور ہمارے پورے خاندان کو فخر ہے کہ ہمارا ایک فرد قبلہ اول پر جان دے کر سرخرو ہوگیا ہے۔

شہید عبداللہ الکسجی کون؟

شہید عبداللہ الکسجی کے بھائی یوسف الکسجی نے بتایا کہ اس کا شہید بھائی ایک تعلیم یافتہ شہری تھا۔ اس نے سنہ 1978ء میں اردن سے عربی ادب کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد جامعہ بیروت سے کامرس کا کورس کیا اور اعلیٰ نمروں کےساتھ اس میں کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں اس نے اردن کی ابو الذھب کمپنی میں ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی کام کیا۔

انہوں نے بتایا کہ شہید الکسجی شادی شدہ تھے اور ان کے چار بجے تھے۔ بڑا بیٹا گریجوایشن اور چھوٹا میٹرک میں ہے۔

یوسف الکسجی نے اسرائیلی حکومت سے اپنے شہید بھائی کا جسد خاکی فوری واپس کرانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے عمان حکومت کی طرف سے الکسجی کی شہادت کی تحقیقات کے لیے کی جانے والی کوششوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ صہیونی ریاست کی طرف سے اس واقعے کی تحقیقات سے مطمئن نہیں۔

اردن کا سرکاری رد عمل

اردنی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس میں سیاحتی ویزے پرآئے  اپنے شہری محمد عبداللہ الکسجی کو گولیاں مار کرشہید کرنے پر سخت غم وغصے کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اردنی شہری کے قتل کی تمام تر ذمہ داری صہیونی ریاست پرعاید ہوتی ہے۔

اس واقعےکے رد عمل میں اردنی وزیر مملکت برائے اطلاعات اور ترجمان محمد المومنی نے کہا کہ بیت المقدس میں ایک قابض قوت کی حیثیت سے اردنی شہری کو گولیاں مار کر قتل کرنے ذمہ داری صہیونی ریاست پرعاید ہوتی ہے۔

انہوں نے اردنی شہری کے قتل کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور تل ابیب سے اس مجرمانہ واقعے کی درست تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

المومنی نےکہا کہ تل ابیب میں اردنی سفارت خانہ شہری کے قتل کے واقعے کی تفصیلات جمع کررہا ہے۔

اسرائیلی موقف

ادھر اسرائیلی پولیس کی خاتون ترجمان لوبا السمری نے بتایا کہ اردن کے 57 سالہ شہری کو اس وقت گولیاں ماری گئیں جب اس نے ایک پولیس اہلکار پر چاقو سے حملہ کرکے اسے شدید زخمی کردیا۔ حملہ آور پولیس اہلکار کو قتل کرنا چاہتا تھا جسے روکنے کے لیے گولی ماری گئی۔

ترجمان کا کہنا ہےکہ حملہ آور نے ایک ہفتہ قبل اسرائیل کا سیاحتی ویزہ حاصل کیا اور الشیخ حسین پل عبور کرکے بیت المقدس داخل ہوا تھا۔

صہیونی پولیس ترجمان نے تسلیم کیا کہ اردنی شہری کے چاقو کے حملے میں باب الاسباط کے سامنے ایک پولیس اہلکار شدید زخمی ہوگیا۔ زخمی پولیس اہلکار کی تصاویر بھی میڈیا پر جاری کی گئیں جس میں اسے لہو لہان دکھایا گیا ہے۔ زخمی کو ’شعری زیدق‘ اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

تحریک انتفاضہ کا دوسرا اردنی شہید

اکتوبر سنہ 2015ء کے بعد فلسطین میں شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ القدس میں جہاں دسیوں فلسطینی شہریوں نے قبلہ اول کے دفاع پراپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے وہیں اردن سے تعلق رکھنے والے شہداء بھی شامل ہیں۔ عبداللہ الکسجی کی شہادت سے قبل ستمبر 2016ء کو بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے قریب اسرائیلی فوج نے ایک اردنی نوجوان سعید العمر کو گولیاں مار کر شہید کردیا تھا۔ سعید العمر بھی سیاحتی ویزے پربیت المقدس آیا تھا۔ یوں اکتوبر دو ہزار پندرہ کے بعد سے جاری تحریک انتفاضہ القدس میں فلسطینی شہریوں کے ساتھ ساتھ اردنی شہریوں کا خون بھی شامل ہے اور عبداللہ الکسجی دوسرے شہید ہیں جنہوں نے قبلہ اول اور بیت المقدس پراپنی جان قربان کی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی