جمعه 15/نوامبر/2024

غزہ کے لیے ملنے والے فنڈز فلسطینی اتھارٹی کے زیراستعمال

ہفتہ 13-مئی-2017

فلسطین کا علاقہ غزہ پٹی اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی بار بار کی جنگوں کے نتیجے میں بری طرح متاثر ہوا ہے۔ عالمی سطح پر غزہ میں تعمیر نو اور بحالی کے لیے امداد کی فراہمی میں کمی کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی بھی تعمیرنومیں عملی رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے۔ غزہ میں فلسطینی وزیر برائے محنت کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں تعمیر نو اور بحالی کے لیے عالمی برادری کی طرف سے ملنےوالی امداد فلسطینی اتھارٹی اپنے دیگر منصوبوں پر خرچ کررہی ہے اور غزہ کے ہزاروں خاندان مکان کی چھت سے محروم ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی وزیر برائے محنت وافرادی قوت مفید الحساینہ نے حال ہی میں غزہ کی پٹی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اسرائیلی جنگجوں کے نتیجے میں مکانات سے محروم ہونے والے ہزاروں خاندان اب بھی مکان کی چھت سے محروم ہیں جو کھلےآسمان تلے یا خیموں اور عارضی قیام گاہوں میں رہائش پذیر ہیں۔ غزہ کی پٹی میں فوری طور پر 2000 رہائشی مکانات کی تعمیر کی ضرورت ہے کیونکہ دو ہزار سے زاید خاندانوں کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں۔ ان کے مکانات اسرائیلی فوج کی بمباری میں کلی طور پرتباہ یا ناقابل رہائش ہوچکےہیں۔

مفید الحساینہ نے کہا کہ غزہ میں ایک لاکھ رہائشی مکانات کی تعمیر کی ضرورت ہے جس کے لیے 18 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔ سنہ 2014ء میں اسرائیل کی مسلط کی گئی جنگ کے بعد غزہ میں تباہ شدہ مکانات کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ ڈالر کی رقم موصول ہوئی ہے۔

عالمی بنک کی رپورٹ

حال ہی میں عالمی بنک کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں تعمیر نو اور بحالی کے لیے ملنےوالے 35 فی صد فنڈز فلسطینی اتھارٹی اور اقوام متحدہ کی ریلیف اینجنسی’اونروا‘ استعمال کررہی ہے۔عالمی بنک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں تعمیر نو اور بحالی کے منصوبوں پر اب تک 1 ارب 70 کروڑ 96 لاکھ ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔ یہ رقم عالمی برادری کی طرف سےملنے والی کل رقم کا 37 فی صد ہے۔  19 فی صد فنڈ فلسطینی اتھارٹی ہڑپ کررہی ہے جب کہ ’اونروا‘ غزہ کی تعمیر نو کی مد ملنے والے 16 فی صد فنڈز استعمال کرتا ہے۔

فلسطینی اقتصادی تجزیہ نگار مارہ الطباع نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عالمی بنک کی رپورٹ میں بیان کردہ اعدادو شمار اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ملنے والی بیرونی امداد کو فلسطینی اتھارٹی بری طرح نوچ رہی ہے۔ انہوں نے کہ امداد دینے والے ممالک غزہ کی پٹی میں بحالی اور تعمیر نو کے عمل میں سست روی پر درست طور پر شکوہ کررہے ہیں۔

یورو ۔ مڈل ایسٹ آبزرویٹری کے چیئرمین اور اقتصادی تجزیہ نگار رامی عبدہ نے کہا کہ عالمی بنک کی طرف سے اس نوعیت کی رپورٹ پہلی بار جاری نہیں کی گئی۔ اس طرح یا اس سے ملتی جلتی کئی اور رپورٹس بھی جاری کی جا چکی ہیں۔ تاہم یہ تمام رپورٹس اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عالمی سطح پر غزہ کی پٹی کی تعمیر نوکے لیے ملنے والے فنڈز کی مانیٹرنگ کا کوئی مربوط نظام نہیں۔ عالمی برادری، بین الاقوامی ابلاغی اداروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو غزہ کی پٹی کے لیے ملنے والی امداد کو درست اور صحیح مقام پر استعمال کرانے کی یقین دہانی کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز اور حاصل ہونے والی رقوم کے حساب کتاب کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ اس معاشی بد انتظامی اور غزہ کےامدادی بجٹ کی کٹوتی سے فلسطینی اتھارٹی کا کردار مزید مشکوک ہوگیا ہے۔

اعدادو شمار

عالمی بنک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی برادری کی طرف سے غزہ کی تعمیر نو اوربحالی کے لیے 3500 ملین ڈالر کی امداد فراہم کرنے کے وعدے کیےگئے ہیں۔ گذشتہ برس کے آخر تک 1796 ملین ڈالر کی رقوم موصول ہوئی جس میں سے صرف 670 ملین ڈالر کی رقم غزہ کی پٹی میں تعمیر نو اور بحالی کے منصوبوں پر خرچ کی گئی۔ بقیہ امدادی رقم فلسطینی اتھارٹی اور اونروا نے ہڑپ کرلی۔ ایندھن اور انسانی بنیادوں پر ملنے والی امداد اس کے علاوہ ہے۔

عالمی بنک کا کہناہےکہ  فلسطینی اتھارٹی کا ٹیکس ریونیو گذشتہ برس 25 فی صد اضافے کے ساتھ 3452 ملین ڈالر تک پہنچا ہے جب کہ 2015ء میں ٹیکس ریونیو کی مد میں 2754 ملین ڈالر کی رقم جمع کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی کے لیے اعلان کردہ رقم کا 22 فی صد قطر کی طرف سے ادا کیا گیا۔ سعودی عرب نے 18، کویت نے 24 فی صد رقم ادا کی گئی۔ امریکا کی طرف سے اعلان کردہ تمام رقم فلسطینی اتھارٹی کو دی گئی۔ یورپی یونین کی طرف سے 85 فی صد کی فراہمی اور ترکی کی جانب سے 70 فی صد اعلان کردہ امدادی رقم فراہم کی گئی۔

فلسطینی تجزیہ نگار ماہر الطباع کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کی طرف سے غزہ کی تعمیر نو کے لیے حاصل ہونے والی امداد کو کما حقہ تعمیر نو کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں غزہ میں تعمیر نو کا عمل سست روی کا شکار ہے۔

ماہر عبدہ کا کہنا ہے کہ عالمی بنک کے بیان کردہ اعدادو شمار کی باریک بینی سے تصدیق کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غزہ کی تعمیر نو کے لیے فراہم کی جانے والی امداد کے استعمال کے لیے مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر مانیٹرنگ کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیل نے سنہ 2014ء میں غزہ کی پٹی پر 51 دن مسلسل زمینی، فضائی اور بحری حملے کیے جس کے نتیجے میں 12 ہزار مکانات مکمل طورپر تباہ اور 1 لاکھ 60ہزار جزوی طور پر متاثر ہوئے تھے جب کہ 6600 مکانات کو ناقابل رہائش قرار دیا گیا تھا۔

مختصر لنک:

کاپی