اسرائیلی کابینہ کی آئینی کمیٹی آئندہ اتوار کو ایک نئے مسودہ قانون پر رائے شماری کرنے جا رہی ہے جس میں کسی بھی اسرائیلی کو فلسطینیوں کے حقوق کے لیے عدالتوں میں جانے یا فلسطینیوں کے دفاع کے لیے کسی بھی قسم کی عدالتی چارہ جوئی پر پابندی عاید کر دی جائے گہ۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مجوزہ مسودہ قانون حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘ کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس مسودہ قانون کا مقصد بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی شعبے میں کام کرنے والے اداروں کو فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سپریم کورٹ سمیت کسی بھی دوسری عدالت سے رجوع کرنے سے روکنا ہے۔
اسرائیل کے عبرانی نیوز ویب پورٹلز میں آج جمعہ کے روز شائع ہونے والی اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ نیا مسودہ قانون حکمراں اتحاد میں اختلافات کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ کیونکہ ’کولانو‘ پارٹی کے وزیر مالیات موشے کحلون سمیت کابینہ کے کئی دوسرے ارکان اس کی مخالفت کرچکے ہیں۔ انہوں نے مجوزہ مسودہ قانون میں ترامیم کا مطالبہ کیا ہے تاہم حکمراں جماعت کی طرف سے اس میں ترمیم کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
رپورٹس کے مطابق مجوزہ قانونی مسودے میں صراحت کے ساتھ یہ بات شامل ہے کہ کوئی اسرائیلی فلسطینیوں کی املاک اور اراضی پر یہودیوں کے قبضے کے خلاف یا فلسطینیوں کے دفاع کے لیے عدالت نہیں جائے گا۔
یہ مسودہ قانون رکن کنیسٹ میکی زھور نے پیش کیا ہے جسے لیکوڈ کے یوتھ گروپ کے چیئرمین ڈیوڈ چیان کی بھی حمایت حاصل ہے۔
مسودے کے متن میں کہا گیا ہے کہ یہودی آباد کاروں کی طرف سے کسی فلسطینی کی املاک پر قبضے کی صورت میں عدالتی چارہ جوئی کا حق صرف متاثر فریق کو حاصل ہوگا۔ کوئی اسرائیلی کسی فلسطینی کی جگہ اس کے کیس کو عدالت میں لے کر نہیں جائے گا۔