جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینیوں کی حمایت میں عدالتی چارہ جوئی روکنے کا اسرائیلی قانون

جمعہ 12-مئی-2017

اسرائیلی کابینہ کی آئینی کمیٹی آئندہ اتوار کو ایک نئے مسودہ قانون پر رائے شماری کرنے جا رہی ہے جس میں کسی بھی اسرائیلی کو فلسطینیوں کے حقوق کے لیے عدالتوں میں جانے یا فلسطینیوں کے دفاع کے لیے کسی بھی قسم کی عدالتی چارہ جوئی پر پابندی عاید کر دی جائے گہ۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مجوزہ مسودہ قانون حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘ کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس مسودہ قانون کا مقصد بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی شعبے میں کام کرنے والے اداروں کو فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سپریم کورٹ سمیت کسی بھی دوسری عدالت سے رجوع کرنے سے روکنا ہے۔

اسرائیل کے عبرانی نیوز ویب پورٹلز میں آج جمعہ کے روز شائع ہونے والی اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ نیا مسودہ قانون حکمراں اتحاد میں اختلافات کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ کیونکہ ’کولانو‘ پارٹی کے وزیر مالیات موشے کحلون سمیت کابینہ کے کئی دوسرے ارکان اس کی مخالفت کرچکے ہیں۔ انہوں نے مجوزہ مسودہ قانون میں ترامیم کا مطالبہ کیا ہے تاہم حکمراں جماعت کی طرف سے اس میں ترمیم کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔

رپورٹس کے مطابق مجوزہ قانونی مسودے میں صراحت کے ساتھ یہ بات شامل ہے کہ کوئی اسرائیلی فلسطینیوں کی املاک  اور اراضی پر یہودیوں کے قبضے کے خلاف یا فلسطینیوں کے دفاع کے لیے عدالت نہیں جائے گا۔

یہ مسودہ قانون رکن کنیسٹ میکی زھور نے پیش کیا ہے جسے لیکوڈ کے یوتھ گروپ کے چیئرمین ڈیوڈ چیان کی بھی حمایت حاصل ہے۔

مسودے کے متن میں کہا گیا ہے کہ یہودی آباد کاروں کی طرف سے کسی فلسطینی کی املاک پر قبضے کی صورت میں عدالتی چارہ جوئی کا حق صرف متاثر فریق کو حاصل ہوگا۔ کوئی اسرائیلی کسی فلسطینی کی جگہ اس کے کیس کو عدالت میں لے کر نہیں جائے گا۔

مختصر لنک:

کاپی