دُنیا میں متعارف ہونے والے جنگ کے پہلے پروٹوکول اور سنہ 1949ء کو منظور ہونے والے تیسرے جنیوا معاہدے میں جنگی قیدیوں کی واضح تعریف متعین کی گئی۔ اس تعریف کی رو سے مسلح افواج سے وابستہ افراد، جنگ میں کسی ایک فریق کے مسلح حامی و مدد گا، مسلح افواج کے ماتحت کام کرنے والے لوگ مخالف گروپ یا ملک کے ہاں گرفتاری کی صورت میں جنگی قیدی قرار دیے گئے۔ اس تعریف کی رو سے جنگ کی کوریج کرنے والے نامہ نگار، عام شہری اور فوجی جہازوں کے غیرلڑاکا عملے کو بھی جنگی قیدیوں سے مبریٰ کیا گیا۔
تاہم پہلے جنگی پروٹوکول کےتحت جنگ میں شامل لڑنے والے ایسے افراد جو مخالف گروپ کے ہاتھوں پکڑے جائیں چاہے ان کی وردی ایک ہو یا نہ ہو یا وہ کسی خاص یونیفارم کا استعمال نہ بھی کرتے ہوں جنگی قیدی ہی کہلوائے گئے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ جنگی پروٹوکول میں تمام مسلح افواج اور اس کی کمان پر جنگ اور گرفتاریوں کی صورت میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا کہ فوج خود کو شہریوں سے منفرد رکھنے کے لیے خاص لباس اختیار کرے تاکہ سولین اور فوج میں فرق کیا جاسکے۔ اگر کوئی فوج بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہیں کرتی تو جنگی قید کی صورت میں بین الاقوامی حقوق اور مراعات کی بھی مستحق نہیں۔
جہاں تک جاسوسوں اور اجرتی قاتلوں کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی صورت میں بین الاقوامی جنگی قیدی کے اصولوں کےزمرے میں نہیں آتے۔ گرفتاری کی صورت میں وہ کم سے کم انسانی درجے کے سلوک کا مستحق قرار دیےگئے۔
تاہم انسانی بنیادوں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق مخالفین کو گرفتار کرنے والی افواج بین عالمی ضابطوں کی پابند قرار دی گئی اور جنگی قیدی بنائے گئے افراد کو بین الاقوامی ضابطوں کے تحت قید میں رکھنے کی شرط عاید کی گئی۔
اس وقت اسرائیل کی جیلوں میں ساڑھے چھ ہزار فلسطینی جنگی قیدی کے طور پرپابند سلاسل ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں۔ ماضی میں لاکھوں فلسطینی صہیونی زندانوں میں قید وبند کی صعوبتیں اٹھا چکے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے بین الاقوامی قوانین کی رو سے فلسطینی اسیران کی آئینی اور قانونی حیثیت پر مفصل رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
اسیران اور جنگی قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے ماضی میں کئی عالمی معاہدے، قوانین اور ضابطہ ہائے اخلاق متعین کیے گئے۔ ان میں تین معاہدے سب سے زیادہ مشہور اور اہم قرار دیے جاتے ہیں۔
1۔ ہیگ کا معاہدہ 4 سنہ 1970ء حصہ دوم[آرٹیکل 4 تا 2]۔
2۔ عمومی جنیوا معاہدہ مجریہ 1929ء برائے اسیران
3۔ جنیوا معاہدہ 1949ء برائے امور اسیران
ان تمام بین الاقوامی معاہدوں میں یہ کلیدی اصول شامل کیا گیا کہ جنگی قیدی کوئی جبری سزا نہیں بلکہ یہ ایک احتیاطی اقدام ہے جو ایک فریق دوسرے کے خلاف اختیار کرتا ہے۔ اس لیے مخالفین کو جنگی قیدی بنانے والا فریق ان [قیدیوں] کی زندگی کے تحفظ اور انہیں بنیادی سہولیات دینے کا پابند ہے۔ جنگی قیدیوں کے خلاف کسی قسم کی انتقامی پالیسی اپنانے، فرار کی کوشش کی صورت میں دوبارہ گرفتار کرکے انہیں جسمانی یا ذہنی اذیت سے دوچار کرنےکی گنجائش نہیں۔ البتہ غیر انتقامی سزا سے ہٹ کرتادیبی کارروائی کی اجازت دی گئی ہے۔
انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ جنگی قیدیوں اور حرب وضرب کے اصول ومبادی میں بھی بہ تدریج بہتری آئی۔ سنہ 1977ء میں منظور ہونےوالے پروٹوکول اول میں مسلح افواج سےوابستہ تمام افراد، مسلح گروپوں، یونٹو اور ایک کمام کے تحت لڑنےوالے ارکان کو شامل کیا گیا۔
اس معاہدے کے تحت تمام جنگی قیدیوں کو نئے احکامات سے مستفید ہونے کا حق دیاگیا۔ پروٹوکول میں واضح کیا گیا کہ جنگی قیدیوں کےحوالے سے تمام افواج قوانین کی پابندی کو یقینی بنائیں گی۔ جب کوئی ایک شخص یا زیادہ افراد کسی دشمن فوج کے ہاتھوں میں جنگی قیدی کی حیثیت سے آئیں تو انہیں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی میں کوئی کوتاہی نہ برتی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلح افراد خود کوعام شہریوں سے منفرد رکھیں۔ اعلانیہ اسلحہ اٹھانے اور جنگ شروع ہونےتک تمام بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں۔ قوانین پرعمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں گرفتار کرنےوالی فوج کو عالمی حقوق اور مراعات سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔
اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیلی فوج کے زندانوں میں قید فلسطینی جنگی قیدی ہیں؟۔
عالمی سطح پر کام کرنے والےانسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے فلسطینی اسیران کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں اور یہ کوششیں آئندہ بھی جاری رہیں گی۔
فلسطینی اسیران کی حیثیت کے تعین سے قبل قیدیوں کے انسانی تجربے کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا۔
دور قدیم میں قیدیوں سے سلوک
پرانے زمانوں میں جنگ کے دوران پکڑے گئے افراد کے کوئی حقوق نہیں ہوتے تھے بلکہ قیدی مردو خواتین اور بچوں کو مال غنیمت کے طور پر رکھا جاتا۔انہیں فروخت کیا جاتا۔ لونڈیا غلام بنا کر ان کا بھاؤ تاؤ کیا جاتا۔ یوں قیدیوں کو جنگ میں حاصل ہونے والے سامان سے زیادہ کوئی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ جو شخص کسی دوسرے کا غلام بن جاتا تو وہ اپنے مالک کی قید سے نکلنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد قیدی بنائے گئے افراد اس حکومت یا فوج کی ملکیت ہوتے۔ تاہم فدیہ دے کر قیدیوں کو رہائی کی اجازت ہوتی تھی۔
انسانی تہذیب وتمدن میں ترقی نے جنگی مفہوم میں بھی جدت پیدا کی۔ اسیران کے ساتھ سلوک بھی تبدیل ہوا اور اس میں بہتری آئی۔ ملکوں اور حکومتوں نے بھی قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے دو طرفہ معاہدے کیے۔ قیدیوں کے تبادلے کے رحجان میں اضافہ ہوا۔
معاصرتاریخ میں 1813ء میں انگلینڈ اور امریکا کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا۔
جنگی قیدیوں کے حوالے حوالے سے پہلا لائحہ عمل بری فوج کے حوالے سے 1899ء اور دوسرا 197ء میں طے کیا گیا۔
انہی معاہدوں کی بنیاد پر 27 جولائی 1922ء کو پہلا جنیوا معاہدہ طے پایا۔ اس کے بعد 12اگست 1949ء کو منظور کیا گیا۔ ان معاہدوں میں جنگی قیدیوں کے مزید حقوق واضح انداز میں متعین کیے گئے۔
بری فوج کے لائحہ عمل میں جنیوا معاہدہ کے آرٹیکل 4 سے20 تک کی دفعات شامل ہیں۔ اس معاہدے میں یہ واضح کیا گیا کہ کسی بھی جنگی قیدی کو غلام بنانا یا ملکیت کا درجہ دینا جرم تصور ہوگا۔ ایسا کرنا شرف انسانی اور انسانی عزت وقار کے منافی اقدام ہوگا۔ نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ آسمانی مذاہب بھی ایسا کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتے۔ انسانی سماجی روایات بھی کسی انسان کو ملکیت کا درجہ دینے اور غلام یا لونڈی بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
ان معاہدوں میں یہ قرار دیا گیا کہ جنگی قیدی کسی گروپ یا فرد کی تحویل میں نہیں بلکہ یہ حکومت کی تحویل میں ہوں گے۔ انہیں رہا کرنا، قیدیوں کے تبادلے کی صورت میں ان کے حوالے سے مذاکرات کرنا یا ان کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔
اسی اصول کے تحت ماضی میں قیدیوں کو تنگ وتاریک کوٹھڑیوں ڈالنے کی ممانعت کی گئی۔ بلکہ قیدیوں کو شہروں کے اندر،قلعہ نما بیرکوں یا کیمپوں میں رکھا جائے گا۔ قید خانوں اور جیلوں کے لیے مختص کی گئی جگہوں کے اندر ڈالے قیدیوں کو اندر کھلے عام پھرنے کی اجازت ہوگی۔
صہیونی عقوبت خانے
بہ ظاہر اسرائیل نے بھی قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے طےپائے عالمی معاہدوں میں شمولیت اختیار کی ہے مگر عملا صہیونی ریاست بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کا مرتکب ہے۔
اسرائیلی جیلوں کے اطراف اور اس کے اندر قیدیوں پر کڑی پابندیاں عاید ہوتی ہیں۔ جیلوں کے احاطے میں خار دار تاریں لگائی جاتی ہیں۔ قیدیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس طرح اسرائیل اسیران کے حقوق کے حوالے سے ہیگ میں منظر ہونے والے معاہدے کی بھی خلاف ورزی کررہا ہے۔
تیسرے جنیوا معاہدہ مجریہ 1949ء میں آرٹیکل 17 کا اضافہ کیا گیا۔ اس قانون کے تحت اسیران کو اپنی تاریخ پیدائش ظاہر کرنے، انسانی حقوق کے کارکنوں کو اپنا فوجی نمبر بتانے اور جیل میں قیدی نمبر بتانے کے ساتھ ساتھ اپنا پورا تعارف کرانے کا حق دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت تمام ممالک کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ جنگی قیدی بنائے گئے افراد کے بارے میں مکمل اور درست معلومات کے بارے میں آگاہ کرے۔
انسانی وقار اور جنگی قیدی
1 ریاست کے قوانین قیدیوں کی عزت نفس کے لیے اقدامات کی مکمل اجازت فراہم کریں۔
2۔عزت اور وقار کے عوض کسی قیدی کو رہائی پر بلیک میل نہیں کیا جائے گا۔
3۔ جنگی قیدی بنانے والی ریاست کسی قیدی کی طرف سے عزت کے سودے پررہائی کی تجویز کو مسترد کرنے کی مجاز ہوگی۔
تمام جنگی قیدیوں کو ان کے مذہبی شعائرکی ادائی کا ہرممکن موقع فراہم کرنے۔ اپنے سامان اور ضروری اشیاء کی حفاظت کرنے کا حق ہوگا تاہم کوئی قیدی گھوڑے، اسلحہ، فوجی دستاویزات، نقشے اور تحریری جنگی احکامات اپنے پاس نہیں رکھے گا۔
ہرقیدی کو اپنی وصیت لکھنے اور اسے اپنے اقارب تک پہنچانے کا حق حاصل ہوگا۔ قیدی جس فوج یا گروپ سے وابستہ ہے اس تک اپنا پیغام پہنچانے کا حق دار ہوگا۔
منظور شدہ حقوق اسیران میں نقدی رقوم، خط کتابت اور مکتوبات کی قیدیوں تک رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔ جنیوا معاہدہ مجریہ 1949ء کے آرٹیکل 68،69 اور 77 میں مذکورہ حقوق کی منظوری دی گئی ہے۔
قانون اسیران کی دفعہ 14 کے تحت جنگی قیدی کو اس کے خاندان سے رابطہ قائم رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔ قیدیوں اور ان کے اہل خانہ سے باہمی رابطے کے لیے جیلوں میں انفارمیشن سیل قائم کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ اسیران انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں سے رابطے کا بھی حق دیتے ہیں۔
بری افواج کے قیدیوں سے متعلق معاہدے کے آڑٹیکل 20 میں جنگی قیدیوں کو فریقین میں صلح کے معاہدے کے بعد رہائی اور وطن واپسی کا حق ہوگا۔ سنہ 1993ء میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان طے پائے معاہدے میں بھی فریقین میں یہ شق شامل تھی۔ چار مئی 1994ء کو طے پائے معاہدے کے تحت اسرائیل تمام فلسطینی اسیران کی غیرمشروط رہائی کا پابند تھا تاہم صہیونی ریاست نے اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا۔
انسانی حقوق کے ادارون نے اسرائیل کے ہاں جنگی قیدی کے تحت پابند سلاسل فلسطینیوں کے بارے میں عالمی قوانین کی روشنی میں اقدامات کی سفارش کی اور یہ واضح کیا کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینیوں کی رہائی کے لیے لمبے چوڑے مذاکراتی عمل کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسرائیل کو جنیوا معاہدہ، معاہدہ ہیگ اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان طے پائے معاہدوں کے مطابق اسیران کو رہا کرنے کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔
معروف مغربی دانشور جان لاک روسو کاکہنا ہے کہ جب کوئی فوج مخالف فریق کے سامنے ہتھیار پھینک دے تو اس ہتھیار ڈالنے والے افراد کی حیثیت سولین ہوجاتی ہے اور کسی حکومت یا گروپ کو ان نقصان پہنچانے کا حق نہیں۔
ارکان پارلیمان کی گرفتاریاں
جنیوا معاہدے کے آرٹیکل 147 کی شق سات میں پارلیمنٹ کے منتخب ارکان اور وزراء کو حراست میں لینا اور انہیں جنگی قیدی بنانے کو جرم تسلیم کیا گیا ہے۔ سنہ 1949ء کے جنیوا معاہدے میں بھی ارکان پارلیمان اور وزراء کو جنگی قیدی بنانے کی سختی سے ممانعت شامل ہے۔ اسرائیل سنہ 1955ء کے بعد سے آج تک قانون کی خلاف ورزی کرتا چلا آرہا ہے۔ 28 نومبر 1955ء مین فلسطینیوں اور اسرائیل کےدرمیان طے پائے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی اور غرب اردن کے منتخب فلسطینی ارکان کو حراست میں نہیں لے گا۔ ارکان پارلیمان کو پارلیمانی تحفظ دیا گیا۔ جنیوا معاہدے کی شق 8 میں ارکان پارلیمان کو سفارتی اور عدالتی تحفظ دیا گیا مگ صہیونی ریاست عملی طور پران تمام معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کرتی چلی آرہی ہے۔
انیسویں صدی عیسوی میں عالمی سطح پر طے پانے والے معاہدوں میں دشمن کا مقابلہ کرنے والی قوم ، مزاحمتی تنظیمیں، عوامی جماعتیں اور ان سے وابستہ افراد کو جنگجوؤں کے زمرے میں شامل کیا گیا اور اس اعتبار سے ان کے حقوق متعین کیے گئے۔ ہیگ کے 1907ء میں منظور ہونے والے معاہدے کے تحت کسی مظلوم قوم کی مزاحمتی اور قومی تنظیموں سے وابستہ افراد کو جنگجو کا درجہ دیا گیا اور گرفتاری کی صورت میں انہیں جنگی قیدیوں ہی کے حقوق فراہم کرنے کی سفارش کی گئی۔ جنیوا معاہدہ 27 جولائی 1929ء کو، 12 اگست 1949ء کا جنیوا معاہدہ 4اور دیگر عالمی معاہدوں، جنرل اسمبلی کی قرارداد 2346 مجریہ 19 نومبر 1974ء میں حق خود ارادیت کےحصول کے لیے لڑنے والی قوم کو خصوصی حقوق دیے گئے۔ ایسی قوم جو اپنے حقوق بالخصوص حق خود ارادیت کے لیے غاصب ریاست کے خلاف جدو جہد کرے اور اس دوران اس قوم کے افراد کو حراست میں لیا جائے توانہیں بنیادی انسانی حقوق کے تحت جنگی قیدی تصور کیا جائے گا۔ مگر ان معاہدوں میں قابج ریاست کو حق خود ارادیت کے لیے جدو جہد کرنے والےطبقے کے نمائندہ ارکان پارلیمان اور وزراء کو حراست میں لینے کی سخت مخالفت کی گئی ہے۔
اس طرح اسرائیل قیدیوں کے حوالے سے عالمی معاہدوں کی درج ذیل خلاف ورزیاں کررہا ہے۔
1۔فلسطینی پارلیمنٹ کے منتخب ارکان کی گرفتاری بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی۔
2۔ تنظیم آزادی فلسطیم کے ساتھ طے پائے معاہدے کے مطابق وزراء کی اور ارکان پارلیمان کی گرفتاریاں منتخب ارکان کا اغواء قرار دیا گیا اور اسرائیل کو اس کا قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس قانون میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیل ارکان پارلیمان کو حاصل تحفظ کے حقوق کو کھلے عام پامال کررہا ہے۔
3۔ وزراء اور ارکان پارلیمان کی گرفتاریوں کو انسانی کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے اور اسرائیل اس جرم کا بھی مرتکب ہو رہا ہے۔
4۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں 242 – 338 – 425 – 1397 – 1402 – 1403 – 1405کی رو سے ارکان پارلیمنٹ کو اذیت دینا جرم قرار دیا گیا ہے اور انہیں یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے سلب شدہ حقوق کے لیے جدو جہد جاری رکھیں۔
5۔ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حراست میں لیے گئے تمام ارکان پارلیمان کی فوری رہائی کی سفارش کی گئی ہے مگر صہیونی ریاست اس حق کی بھی خلاف ورزی کررہی ہے۔
6 ارکان پارلیمان کو حراست میں رکھنا جنگی جرم ہے اور اسرائیل اس جرم کا بھی مرتکب ہے۔
سنہ1979ء میں جاری کردہ معاہدے کے تحت یرغمال بنانے کی ممانعت کی گئی ہے۔
سنہ1998ء میں قائم ہونے والی بین الاقوامی فوج داری عدالت نے بھی حق خود ارادیت کے لیے جدو جہد کرنے والے افراد کو یرغمال بنانے کو جرم قرار دیا ہے۔
جنیوا معاہدہ مجریہ 1949ء بھی ارکان پارلیمان کے تعاقب کو جرم قرار دیتا ہے۔
قصہ مختصریہ کہ حق خود ارادیت کے مطالبے کے جرم میں فلسطینی شہریوں کو جنگی قیدی بنانا اور دوران حراست ان کے بنیادی حقوق کو پامال کرنا صہیونی ریاست کا وطیرہ ہے۔
بین الاقوامی معاہدوں کا حصہ ہونے اور عالمی قوانین کی پاسداری کی یقین دہانی کے باوجو صہیونی ریاست فلسطینی شہریوں کے خلاف سنگین جرائم کی مرتکب ہے۔