امریکا میں فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کے لیے سرگرم ’امریکن اسلامک فاؤنڈیشن برائے فلسطین‘ کے ایک سینیر عہدیدار اور سماجی کارکن اسامہ ابو ارشید نے کہا ہے کہ انہوں نے کانگریس میں’یوم فلسطین‘ منانے کا فیصلہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ مظلوم فلسطینی قوم کے حقوق کی آواز دنیا کے تمام ایوانوں میں پہنچ رہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اسامہ ارشید نے کہا کہ ایک امریکی شہری کی حیثیت سے ہم امریکی کانگریس کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے بارے میں واشنگٹن کی حکمت عملی ناقص، جانب داری پرمبنی اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ہم امریکا کو اسرائیل کی اندھی حمایت سے روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔
اسامہ ارشید نے یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں دیا ہے کہ یکم مئی کو امریکی کانگریس میں ’یوم فلسطین‘ منایا گیا۔ کانگریس میں ’یوم فلسطین‘ منانے کا آغاز تین سال پیشتر ہوا تھا۔اس اقدام کا مقصد ارکان پارلیمان کو مسئلہ فلسطین اور اس کے زمینی حقائق سے آگاہ کرنا ہے۔ یوں ہر سال امریکا میں قائم امریکن اسلامک فاؤنڈیشن‘ کانگریس میں یوم فلسطین مناتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اسامہ ارشید کا کہنا تھا کہ کانگریس میں بیھٹے بہت سے امریکی سیاست دان نہیں جانتے کہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے۔ اسرائیل کس قدر فلسطینیوں پر مظلم ڈھا رہا ہے۔ صہیونی ریاست کی وحشیانہ پالیسی کے بارے میں کانگریس کو آگاہ کرنے کے لیے کانگریس میں ’یوم فلسطین‘ منایا جاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس بار امریکی کانگریس میں ’یوم فلسطین‘ کے موقع پر فلسطین میں یہودی آباد کاری، امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقلی اور اس کے منفی اثرات اور فلسطین میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بات چیت کی گئی۔
اسامہ ارشید کے ساتھ ہونے والے مکالمے کا احوال پیش خدمت ہے۔
*۔۔۔ امریکی کانگریس کی چھت تلے فلسطینی حقوق کی آواز بلند کرنے اور اس ضمن میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے کا خیال کیسے آیا؟۔
اسامہ ارشید:۔۔ ایک امریکی شہری کی حیثیت سے جس طرح ہمارے کچھ حقوق ہیں تو کچھ فرائض بھی ہیں۔ ایک شہری کی حیثیت سے ہم بھی اپنے منتخب نمائندوں تک اپنے مفاد کے لیے آواز پہنچانے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ ہمارے سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی طبقات کی آواز کو غور سے سنیں اور ان کی طرف سے اٹھائے کے مطالبات پرعمل درآمد کریں۔ یہی محرک ہمیں کانگریس کے دونوں ایوانوں میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے تصور کی طرف لے گیا۔
*۔۔۔ کیا امریکی عہدیدارقضیہ فلسطین سے نابلد ہیں؟
اسامہ ارشید:۔ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ امریکی کانگرنس میں موجود ارکان اکثریت مسئلہ فلسطین کی حقیقت سے نابلد ہے۔ جن ارکان کے پاس فلسطین، اسرائیل تنازع کے حوالے سے کوئی معلومات ہیں تو وہ انتہائی ناقص ہیں۔ وہ صرف اپنے یہودی ووٹروں کو خوش رکھنے کے لیے اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ یہودی ووٹر اور امریکا میں یہودی کاروباری لوگوں کا پیسہ کام دکھا رہا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل اور یہودیوں کو امریکا کا حلیف سمجھا جاتا ہے۔ بعض اوقات تو یہودی امریکی تزویراتی پالیسی کے بھی خلاف ہوتے ہیں مگر ارکان کانگریس مجبورا اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔
*۔۔ کانگریس ارکان سے ملاقاتوں اور سرگرمیوں کا مقصد؟
اسامہ ابو ارشید:۔ امریکی کانگریس میں ملاقاتوں کا مقصد اور ہدف امریکی قانون سازوں کو یہ بتانا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت اسرائیل کی اندھی حمایت کو تسلیم نہیں کرتی۔ ہم اپنےمالی اور فکری وسائل کو اس امر پرصرف کررہے ہیں کہ امریکی فلسطین اور اسرائیل عدل وانصاف، آزادی اور مساوات کو یکساں رکھیں۔ ان سرگرمیوں کا دوسرا مقصد امریکی مفادات کی روشنی میں فلسطین اور قضیہ فلسطین کے بارے میں آگاہی نہ رکھنے والے ارکان کو فلسطین کی اصل صورت حال سے آگاہ کرنا ہے۔ انہیں صہیونی ریاست کے جرائم کے پہلو سے آگاہ کرنا اورانہیں بتانا کہ وہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کے بہت سے پہلوؤں سے لاعلم ہیں۔
ان سرگرمیوں کا تیسرا مقصد ایک ایسی مسلمان، عیسائی اور یہودی نسل تیار کرنا ہے جو فلسطین پر یہودی قبضے کو غیرقانونی قرار دینے کی حمایت میں اضافہ کرنا، امریکا میں نچلی سطح پر ووٹروں کو فلسطینیون پرہونے والے ظلم سے آگاہ کرنا اور انہیں زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑا کرنا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ امریکا میں عرب، مسلمان اور فلسطینی کمیونٹی وہ کردار ادا نہیں کررہی جس کی اس سے توقع کی جانی چاہیے۔
*۔۔ صہیونی لابی کے ترویج کردہ موقف کے سامنے فلسطینی موقف کو کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟
اسامہ ابو ارشید:۔امریکی کانگریس اور امریکا کے دوسرے اداروں میں ہم گذشتہ تین سال سے اس مسئلے پرکام کررہے ہیں۔ ہم نے واشنگٹن بالخصوص امریکی کانگریس میں’یوم فلسطین‘ کی سرگرمی کا آغاز کیا۔ ہم محدود ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔ اس بار ہم نے فلسطین میں یہودی آباد کاری، اس کے فلسطینی قضیے پرپڑنے والے منفی اثرات، امریکی سفارت کانے کی بیت المقدس منتقلی کے منفی اثرات اورصہیونی ریاست کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو کانگریس میں پیش کیا۔ان میں سے ہرموضوع کے قانونی، انسانی، تاریخی اور انسانی حقوق پہلو پوری تفصیل کے ساتھ پیش کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ایشوز پر عالمی قوانین اور امریکی قوانین میں تقارب اور تقابل کیا گیا۔ یہ بتایا گیا کہ امریکا کی اعلانیہ پالیسی اور امریکی روایات موجودہ حکومتی موقف کے برعکس ہیں۔ امریکی قانون اور روایات میں آزادی، انصاف، مساوات سب کے لیے کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے بتایا کہ فلسطین میں یہودی آباد کاری کی حمایت اور امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور ان کا براہ راست اثر امریکی تزویراتی پالیسی اور امریکی قومی سلامتی پر مرتب ہوگا۔
*۔۔ اپنے ویژن کو پیش کرنے کے لیے آپ نے کون سا اسلوب اپنایا؟
اسامہ ابو ارشید:۔ ہم نے کانگریس اور امریکی سماج وسیاست میں قضیہ فلسطین کی حمایت امریکی اقدار کی روشنی، قومی سلامتی اور امریکی قومی مفادات کے تناظرمیں شروع کی۔ ہم اپنی مہم کے دوران یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم امریکا میں کام کررہے ہیں نا کہ مشرق وسطیٰ میں۔
ہم امریکی قوانین اور اقدار کے مطابق فلسطینی اور اسرائیلی حقوق کے معاملے میں امریکی جانب داری کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امریکی قیادت اسرائیل کی طرف داری کے بجائے غیر جانب دارانہ پالیسی اپنائے۔ امریکی قوانین سنہ 1967ء کی حدود میں آزاد اورخود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالیوں، نسل پرستی، مذہبی یہودی اجارہ داری کی روک تھام ، امریکی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب صہیونی اداروں کا محاسبہ کرنے بالخصوص غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی سرگرمیوں کی روک تھام کرنا ہماری کوششوں کا مطمع نظر ہے۔ ہم اسی سیاق میں امریکی سیاسی حلقوں کو متحرک اور فلسطین میں عدل و انصاف کی فرمانروائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
*۔۔ کانگریس فلسطینی کاز کی آواز بلند کرنے کے نتائج؟
اسامہ ابو ارشید:۔ اوپر بیان کردہ تین نکات [فلسطین میں یہودی آباد کاری، امریکی سفارت خانے کی منتقلی اور فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی] کے بارے میں نہ صرف امریکی کانگریس کو آگاہ کیا گیا بلکہ امریکی محکمہ خارجہ کے مندوبین، ایوان نمائندگان اور سینٹ کے ارکان کے سامنے بھی یہ موضوعات پیش کیے گئے۔ انہوں نے اطمینان کے ساتھ سب کچھ سنا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکی سیاست دانوں اور ارکان کانگریس کے ساتھ بات چیت میں غزہ کی پٹی پر مسلط ناکہ بندی، اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی بھوک ہڑتال اور فلسطین سے متعلق دیگر اہم معاملات بھی زیربحث آئے۔ امریکی ارکان کانگریس اور وزارت خارجہ کے عہدیداروں نے ہم سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ امریکی فلاحی اور خیراتی اداروں کو غزہ کی پٹی میں ریلیف سرگرمیوں کی اجازت دلوانے کے لیے لائحہ تیار کریں گے۔
ہم نے امریکی حکام اور کانگریس پر بھرپور دباؤ ڈالا کہ وہ غزہ کا محاصرہ مکمل طور پرختم کرانے کے لیے اقدامات کریں مگر ان کا جواب تھا کہ مصر اور اسرائیل دونوں نے غزہ کا محاصرہ کررکھا ہے اور یہ دونوں مل کر فلسطینی اتھارٹی کی مدد کررہے ہیں۔ ہم نے انہیں بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی، مصر اور اسرائیل تینوں غزہ میں امریکی ریلیف سرگرمیوں کی مخالفت نہیں کریں گے مگر وہ اپنے موقف پر قائم رہے ہیں۔
ہم نے بتایا کہ ’لیھی قانون‘ بین الاقوامی انسانی حقوق کی شرائط کے پابند اداروں کی مالی معاونت کی اجازت فراہم کرتا ہے۔ اگرشہری امداد کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی حاصل ہوجائے توغزہ کے عوام کو اس قانو کے تحت امداد فراہم کی جاسکتی ہے۔
*۔۔ کانگریس میں ’یوم فلسطین‘ پر امریکا میں سرکاری اور عوامی رد عمل کیسا رہا؟
اسامہ ابو ارشید:۔ اس بار ہماری مہم میں 75 اہم شخصیات شامل رہیں۔ ان میں 98 فی صد نوجوان تھے۔ ہماری مہم میں شامل شخصیات میں 10 فی صد یہودی اور عیسائی تھے۔
جہاں تک امریکی حکام کی طرف سے ہمارے موقف کو سننے کی بات ہے تو ہم امریکی حکام جانتے ہیں کہ ہم عرب اور مسلمان کمیونٹی کی حمایت سے قضیہ فلسطین کو اجاگر کررہے ہیں۔
امریکی حکام اور سیاسی جماعتیں جانتی ہیں کہ مسلمان اور عرب کمیونٹی کا ملکی سیاست میں اہم کردار ہے اور ہم مستقبل کی امریکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ فلسطین ہمارے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس کے لیے منظم ، بیداری اور صبر کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
عوامی سطح پربھی تمام طبقات نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے ہونے والی سفارتی اور سیاسی مساعی کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔
*۔۔ فلسطینی حقوق کی حمایت کے لیے استعمال ہونے والے وسائل
اسامہ ابو ارشید:۔ ہم تعلیمی اور ثقافتی انداز میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ فلسطین اور فلسطینی قوم کے بارے میں امریکی سیاست پر اثرانداز ہونا اتنا آسان نہیں۔ مگر ہم نے جامعات میں اس حوالے سے خصوصی تقریبات،ورکشاپس کا قیام، چرچوں میں آگاہی مہمات حتیٰ کہ اعتدال پسند یہودیوں کی عبادگاہوں [معابد] میں بھی مسئلہ فلسطین کی آواز کو پہنچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس دوران ہمیں امریکی معاشرے کے تمام طبقات، یہودیوں، عیسائیوں،ہندؤوں، بدھ مذہب کے پیروکاروں، لاطینی امریکا کے شہریوں، سیاہ فام اور سفید فاموں کی طرف حمایت اور معاونت حاصل ہے۔
سنہ 1981ء کے بعد امریکا میں فلسطینیوں کی حمایت اور فلسطینویں سے ہمدردی میں اضافہ ہوا۔ ہمدردی کرنے والوں میں یہودی بھی پیش پیش ہیں۔ امریکا میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی موثر تحریک بھی اس کا حصہ ہے۔ اس تحریک نے امریکی وفاقی حکومت پر اسرائیل کے حوالے سے دباؤ ڈالا۔ اس تحریک نے اسرائیل کو مشتعل کیا۔