سوسن الخلیلی ایک 46 سالہ جسمانی طور پرمعذور مگر آہنی اور فولادی عزم فلسطینی خاتون ہیں جنہوں نے اپنے دست ہنر سے نہ صرف اپنی جسمانی معذوری کو شکست دی بلکہ اپنے دست ہنرکا وہ جادو جگایا جس کے چرچوں کی گونج سات سمندر پار بھی سنائی دیتی ہے۔
سوسن الخلیلی معذوری کے باجود ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ انہوں نے معذوری کو مات دیتے ہوئے سلائی کڑھائی اور کشیدہ کاری کا ایسا پیشہ اختیار کیا جس نے اسے نہ صرف شہرت دی بلکہ عزت اور معقول روزگار بھی فراہم کیا۔ وہ اپنے فن کا لوہا اندرون اور بیرون ملک منوا چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فن اور دست کاری کے اعزاز میں مقامی اور عالمی سطح پر کئی میڈل بھی مل چکے ہیں۔
سوسن الخلیلی کا کہنا ہے کہ موجودہ شہرت اور عزت کا مقام پانے کے لیے اس نے دن رات محنت کی۔ کشیدہ کاری اور دست کاری ایسے ایسے نادر نایاب نمونے تیار کیے جنہیں دور دور تک پسند کیا گیا۔ اس کاکہنا ہے کہ آغاز اگرچہ مشکلات میں کیا مگر اس کی راہ میں رکاوٹیں کم رہ گئی ہیں۔ دست کاری کا فن اسے ورثے میں ملا۔ اس نے گھروں میں ڈیکوریشن[سجاوٹ] کے لیے استعمال ہونے والی لکڑی کی اشیاء، برتنوں، کپڑوں اور دیگر لوازمات پر کشیدہ کاری کے جوہردکھائے۔
فن دست کاری
سوسن الخلیلی کا کہنا ہے کہ اس نے فن نے اسے اتنی عزت دی کہ وہ آج فلسطین میں معذور فیڈریشن کی جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری بھی انجام دے رہی ہیں۔ وہ اس ادارے کی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ممبر بھی ہیں۔ معذوری نے اس کے فن کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کی۔ جسمانی معذوری کو اس نے اپنی ترقی کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے الخلیلی نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کے لوگ بار بار میرے فن اور اس کی شروعات کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ میں ان سب کو ایک ہی جواب دیتی ہوں کہ جب حالات اور امکانات سازگار ہوں تو ہم کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ آغاز کار میں مَیں نے دست کاری کے ایک مقامی ادارے میں کام شروع کیا۔ مگر جلد ہی میری تیار کردہ دست کاری کی اشیاء فلسطین میں مشہور ہونے لگیں۔ اگلے مرحلے میں مجھے یورپ اور دوسرے ملکوں میں جانے اور اپنے فن کو جلا بخشنے کا بھی موقع ملا۔
ایک سوال کے جواب میں سوسن الخلیلی کا کہنا تھا کہ فلسطین میں معذور افراد کی تعداد 44 ہزار سے زیادہ ہے۔ معاشرے میں معذوروں کو عزت کی نگاہ سے نہیں بلکہ انہیں معاشرے کے بے کار افراد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس نے سماج کی معذوروں کے بارے میں سوچ تبدیل کی۔ میری معذوروں نے بہت سے دوسرے معذور مردو زن کو بھی ایک نیا ولولہ اور حوصلہ دیا۔
اس نے کہا کہ کچھ عرصہ پیشتر میں نے اٹلی کی دست کاری فاؤنڈیشن ’آڈیو کیڈ‘ سے متعارف ہوئی۔ اس تنظیم نے مجھے ایک چھوٹا سا دست کاری پروجیکٹ شروع کرنے میں مالی معاونت فراہم کی۔ اس کے بعد مجھے اٹلی بلایا گیا۔ میں نے اٹلی کے مختلف شہروں میں دست کاری کے طریقوں سے آگاہی حاصل کی۔ اس کے بعد فرانس، بیلجیم، رومانیا، جرمن اور برطانیہ جیسے ملکوں میں دست کاری کی مصنوعات کی نمائشوں میں شرکت کا موقع ملا۔ میں نے ان تمام نمائشوں میں اپنے کشیدہ کاری اور دست کاری سے تیار کردہ چیزیں پیش کیں جنہیں بے حد پسند کیا گیا۔
الخلیلی نے بتایا کہ اندرون فلسطین بھی اس کے کام کو بہت زیادہ پسند کیا اور اس کے رہ نمائی پر پانچ دوسری معذور فلسطینی خواتین نے بھی دست کاری کا پیشہ اختیار کیا۔
مسلسل معاونت
سوسن الخلیلی کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کی32 معذور خواتین کو سپورٹ کر رہی ہیں۔ اطالوی کمپنی نے فلسطین سے کشیدہ کاری اور دست کاری میں دلچسپی رکھنے والی کئی معذور خواتین کو بیرون ملک دورے کے لیے بلایا گیا۔ مگر گذشتہ ماہ وہ معذور خواتین کا وفد بیرون ملک گذرگاہ کی بندش کی وجہ سے نہ لے جاسکیں۔
انہوں نے بتایا کہ معذوروں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں نے انہیں اپنے اداروں کی اسناد بھی دے رکھی ہیں۔ دیگر اداروں کی معاونت سے انہوں نےفلسطین میں 150 معذور خواتین کو دست کاری، کشیدہ کاری، شیشے پر کڑہائی، لکڑی پر کڑہائی اور برتنوں پر کشیدہ کاری کی تربیت فراہم کی۔
الخلیلی نے بتایا کہ معذوری کے علی الرغم اس نے اپنے سی وی میں کئی نمایاں کامیابیاں شامل کیں۔ سنہ 2015ء میں اسے فلسطین کی بہترین خواتین کا اعزاز بھی فراہم کیا گیا۔ وہ اب تک کئی بین الاقوامی اداروں سے میڈل، تمغے اور انعامات حاصل کرچکی ہیں۔