غاصب اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی اراضی پر غاصبانہ قبضے کی جاری منظم مہمات کے ساتھ ساتھ یہودی آباد کار اور انتہا پسند تنظیمیں بھی اس مکروہ حربے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ارض فلسطین میں چپے چپے پر یہودیوں کو بسانے کی مذموم مہمات کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے حربے بھی اراضی ہتھیانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ انہی مجرمانہ حربوں میں ایک منظم ہتھکنڈہ فلسطینی زمین پر جعلی قبرستانوں کا قیام بھی ہے۔ یہ جعلی قبرستان صرف فلسطینی اراضی غصب کرنے کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کا قبلہ اول کہلانے والی مسجد اقصیٰ پورے فلسطین میں سب سے حساس مقام ہے اور صہیونیوں کی نظریں بھی اسی مقدس مقام کا گھیراؤ کرنے پر مرکوز ہیں۔ چنانچہ مسجد اقصیٰ کے اطراف واکناف میں جا بہ جا جعلی قبروں کی بھرمار ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق بیت المقدس میں اسلامی قبرستانوں کی نگران کمیٹی کے چیئرمین انجینیر مصطفیٰ ابو زھرہ کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی مشرقی، مغربی اور جنوبی اطراف میں جعلی قبروں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ یہ نام نہاد قبریں جن میں کوئی مردہ دفن نہیں صرف قیمتی فلسطینی زمین پر قبضے کی گھناؤنی کوشش ہے۔
ابو زھرہ نے کہا کہ صہیونی ریاست ایک منظم پالیسی کے تحت مسجد اقصیٰ کے جنوب، مشرق اور مغرب کی اطراف سے مقدس مقام کا گھیراؤ کررہی ہے۔ یہ جعلی قبریں بھی اس گھناؤنی سازش کا حصہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ قبریں مسجد اقصیٰ کی مشرقی اور جنوبی سمت میں بنائی گئی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر دور بنو امیہ کی بنائے تاریخی محلات کے کھنڈرات ہیں اور مسجد المروانی واقع ہے۔ عرف عام میں اس جگہ کو ’السلودحہ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ صہیونی حکومت اور اسرائیلی بلدیہ کے ذیلی ادارے مسجد کے اطراف میں یہودی آباد کاروں کے قبرستانوں کی آڑ میں قبلہ اول کا گھیراؤ کررہے ہیں۔
فلسطینی اراضی ہتھیانے کا حربہ
مصطفیٰ ابو زھرہ نے بیت المقدس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ پیشتر مسجد اقصیٰ کے جنوب مغربی سمت میں وادی الربابہ کے الباطون کے مقام پر جعلی قبریں بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ یہ تمام جعلی قبریں اندر سے خالی ہیں۔ ان کا اصل مقصد مسجد اقصیٰ کے آس پاس کی اراضی پر قبضہ کرکے اسے صہیونی ریاست کے دیگر مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مسجد اقصیٰ کی جنوب مشرقی دیوار اور مصلیٰ المروانی کے قریب 40 جعلی قبروں کا انکشاف ہوا ہے۔ پہلے یہ جعلی قبریں بنائی گئیں۔ بعد ازاں انہیں مسمار کرکے وہاں پر یہودیوں کے لیے دوسری تعمیرات کی گئیں۔ یہ جگہ فلسطینی مسلمانوں کے قبرستان کے لیے مختص ہے مگر صہیونی بلدیہ نے فلسطینیوں کو اپنے مردے یہاں دفن کرنے سے سختی سے منع کررکھا ہے۔ ان جعلی اور برائے نام قبروں کی جگہ کو بعد میں مزعومہ نیشنل پارک میں تبدیل کیا گیا۔ اس پارک کا رقبہ 90 مربع میٹر ہے۔
بیت المقدس میں منعقدہ ’اسلامی قبرستان، ورثہ اور اسلامی تشخص‘ کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ابو زھرہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی اراضی پر جعلی قبروں کا قیام دراصل صہیونی ریاست کی زندوں اور مردوں کے خلاف جنگ ہے۔ صہیونی انتظامیہ اور یہودی تنظیمیں نہ صرف مسجد اقصیٰ کے لیے وقف اراضی کو ہتھیانے کے لیے وہاں پرجعلی قبریں بنا رہے ہیں بلکہ مسجد اقصیٰ کے انتہائی قریب باب الرحمہ قبرستان اور مصلیٰ المروانی جیسے مقامات کو بھی فلسطینیوں سے غصب کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ صہیونی انتظامیہ باب الاسباط کے قریب واقع فلسطینی قبرستان کے داخلی راستے پر ایک پل تعمیر کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس پل کے قیام کی آڑ میں باب الاسباط میں پرانے فلسطینی قبرستان پرقبضہ کرلیا گیا ہے۔ یہ جگہ بھی فلسطینی محکمہ اوقاف کی املاک میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیت المقدس میں کئی تاریخی قبرستان مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ اور ثقافتی ورثہ ہیں۔ بعض قبرستان سنہ سات ھجری سے قائم ہیں۔ ان میں مامن اللہ قبرستان میں صحابہ کرام، تابعین، مسلمان خلفاء اور دیگر بزرگان آسودہ خاک ہیں۔ یہ قبرستان 734 ھ میں قائم ہوا۔ اس قبرستان میں موجود قبروں پر لگے کتبوں سے وہاں پر دفن کئی اہم شخصیات کا بھی پتا چلتا ہے۔
تاریخ مسخ کرنے کی کوشش
مصطفیٰ ابوزھرہ نے کہا کہ فلسطینی مقابر اور مقدس مقامات کو مٹانے کی منظم مہم کا مقصد بیت المقدس کی اسلامی شناخت کو ختم کرنا اور حقائق مسخ کرنا ہے۔ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے اطراف میں 98 فی صد تاریخی قبریں مسمار یا مسخ کی جا چکی ہیں۔ بہت سے فلسطینی شہری اب اپنے آباؤ اجداد کی قبور سے واقف نہیں، قبروں کے نشانات مٹائے جانے کے نتیجے میں فلسطینیوں کی زیارت قبور بھی متاثر ہوئی۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تاریخی اسلامی قبرستانوں میں مامن اللہ کا نام سر فہرست ہے۔ مامن اللہ کو فلسطین کے سب سے بڑے اور تاریخی قبرستان کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ 200 دونم پر پھیلے اس قبرستان میں جلیل القدرصحابہ کرام کے مزار، تابعین، تبع تابعین کی آخری آرام گاہیں موجود ہیں۔ یہ قبریں بیت المقدس کے سنہ 636ء میں اسلامی قلمرو میں شامل ہونے کےبعد کی ہیں۔
صہیونی ریاست نے سنہ 1948ء میں مامن اللہ قبرستان کے ایک حصے پرقبضہ کیا اور اس کے بعد اس میں موجود تاریخی قبروں کے نشانات مٹانے شروع کیے۔قبرستان کے ایک بڑے حصے کو ’فریڈم پارک‘ کے نام سے ایک پارک میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ قبرستان کو یہ جعلی اور من گھڑت نام جنوبی افریقا سے تعلق رکھنے والے یہودی فوجیوں کی طرف سےدیا گیا تھا۔ قبرستان پرنہ صرف ایک پارک بنایا گیا بلکہ ’لیونارڈو‘ نامی ایک ہوٹل بھی اسی مقدس سرزمین پر قائم ہے، شراب خانے اور دیگر مقاصد کے لیے بنائی گئی عمارتیں اس کے سوا ہیں جہاں آئے روز یہودی آباد کار شراب وشباب کی محافل منعقد کرکے وہاں پر آسودہ خاک بزرگان اسلام کی ارواح کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔