شنبه 03/می/2025

اسرائیل نے بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کا نیا بم گرادیا

ہفتہ 29-اپریل-2017

اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاروں کے لیے بڑے پیمانے پر مکانات کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مشرقی بیت المقدس میں 15 ہزار نئے مکانات جب کہ مقبوضہ بیت المقدس میں مجموعی طور پر 25 ہزار مکانات کی تعمیر کی منظوری دی گئی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی وزیر برائے ہاؤسنگ یوآف گیلنٹ نے سرکاری ریڈیو سےبات کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس میں اسرائیلی بلدیہ اور وزارت ہاؤسنگ گذشتہ دو سال سے بیت المقدس میں 25000 مکانات کی تعمیر پر غور کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے 15000 مکانات مشرقی بیت المقدس میں تعمیر کیے جائیں گے اور باقی شہر کے دوسرے مقامات پر بنانے کی تجویز شامل ہے۔ صہیونی وزیر کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی لاگت آئے گی۔

ان میں سے 10 ہزار مکانات المالحہ، ارنونا، رمات رحیم اور مغربی بیت المقدس میں ‘عین کارم‘ کالونیوں میں تعمیر کئے جائیں گے۔

اس کے علاوہ بقیہ 15 ہزار مکانات مشرقی بیت المقدس میں ’گیوات ھماتوس، عطارو اور رمات شلومو یہودی کالونیوں میں تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس پر سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک صہیونی ریاست نے بیت المقدس میں بڑی تعداد میں یہودی آباد کاروں کو بسانے اور شہر کو یہودیانے کے منصوبے جاری کیے ہیں۔

تازہ اور غیرمعمولی تعمیراتی منصوبے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ اگلے چند ہفتوں کےدوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرپ مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنےوالے ہیں۔ اپنے اس دورے کےدوران وہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی قیادت سے بھی ملاقات کریں گے۔

اسرائیلی حکومت کی طرف سے بیت المقدس میں 25000 مکانات کی تعمیر کا اعلان صہیونی ریاست کی ہٹ دھرمی کا واضح ثبوت تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت کے لیے بھی یہ ایک امتحان ہے۔ اگرچہ امریکی انتظامیہ فلسطین میں غیرقانونی یہودی آباد کاری کے خلاف نہیں۔

بیت المقدس کو فلسطینی ریاست اور اسرائیل دونوں اپنا اپنا دارالحکومت بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ غیر منقسم بیت المقدس صہیونی ریاست کا ابدی دارالحکومت ہے۔ تاہم عالمی برادری اسرائیل کے اس دعوے کی حمایت نہیں کرتی۔ سنہ 2014ء میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن بات چیت بھی یہودی آبا دکاری ہی کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوئی تھی۔

مختصر لنک:

کاپی