لینا احمد الجربونی اگرچہ بہ ظاہر ایک عام فلسطینی خاتون ہیں مگر پورا فلسطین انہیں اپنی’ہیروئن‘ مانتا ہے۔ وہ کسی فلمی گروپ کی ہیروئن نہیں بلکہ زندگی کی مسلسل 15 بہاریں صہیونی ریاست کے زندانوں میں گذارنے والی وہ بہادر خاتون ہیں جنہوں نے اپنے عزم سے صہیونی ریاست کے مظالم کے پہاڑ کو بھی ریزہ ریزہ کیا ہے۔
لینا احمد الجربونی کو ’اسیرات کی قائد‘ اور ’اسیرات کی ماں‘ کے القابات دیے گئے۔ وہ اس لیے کہ گذشتہ پندرہ سال انہوں نے صہیونی زندانوں نے جوانمردی کے ساتھ گذار کر دشمن کو یہ پیغام دیا ہے کہ فلسطینی قوم کے بیٹے ہی نہیں بیٹیاں بھی آزادی کے لیے اسی جذبے سے سرشار ہیں جس جذبے کا مظاہرہ فلسطینی نوجوان کررہے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ڈیڑھ عشرے تک مسلسل اسرائیلی قید خانوں میں شب و روز بسرکرنے کے بعد گذشتہ روز جیل سے آزادی کی نعمت سے بہرمند ہونے والی 43 سالہ الجربونی کی زندگی پر ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
رہائی کے بعد اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے الجربونی نے کہا کہ وہ فلسطینی اسیران کی طرف سے پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ ظلم کی شب تار ہمیشہ نہیں رہتی بلکہ ایک نا ایک دن صبح روشن سے ہمکنار ضرور ہوتی ہے۔ پندرہ سال صہیونی عقوبت گاہوں کی تنگ وتاریک تہ خانوں میں وقت گذارنے کے بعد وہ آج ایک بار پھر سرخرو ٹھہری ہیں۔ وہ تمام فلسطینی جو اس وقت صہیونی دشمن کے پنجے میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، کسی نا کسی وقت ضرور آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوں گے۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب جیل کی سلاخیں ٹوٹیں گی اور آزادی کے یہ متوالے آزاد فضاء میں سانس لیں گے۔[انشاء اللہ]۔
لینا الجربونی کی ابتدائی زندگی
لینا الجربونی 11 جنوری 1974ء کو عکا شہر کے عرابہ البطوف قصبے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک سرکردہ فلسطینی رہ نما تھے جنہوں نے 8 سال اسرائیلی جیلوں میں قید میں گذارے۔
لینا بہن بھائیوں کے اعتبار سے کافی خوش حال تھیں کیونکہ اس کی 8 بہنیں اور 8 بھائی تھے۔ یہ سب ایک ماں سے نہیں تھے کیونکہ ان کے والد الحاج احمد الجربونی نے دو شادیاں کی تھیں جن سے ان کے کل سترہ بچے بچیاں تھیں۔
لینا نے ایک دین دار اور مزاحمتی خاندان میں آنکھ کھولی اور اسی ماحول میں پرورش پائی۔ سنہ 1992ء میں انہوں نے انٹرمیڈیٹ کیا، مگر اس کے بعد مالی مشکلات کے باعث اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکیں۔
گرفتاری اور دوران حراست اذیتیں
اسرائیلی فوج نے 18 اپریل 2002ء کو عربہ البطوف قصبے میں لینا کے گھر پر چھاپہ مارا۔ اس وقت ان کی عمر 28 سال تھی۔ صہیونی فوج الجربونی کو اٹھا کر لے گئے۔ اس پر فلسطینی فدائی حملہ آوروں کو سہولت فراہم کرنے، انہیں پناہ دینے اور مزاحمتی تنظیم ’اسلامی جہاد‘ کے ساتھ تعلقات کے الزامات میں مقدمہ چلایا۔
گرفتاری کے بعد لینا الجربونی کو ’الجلمہ‘ نامی بدنام زمانہ حراستی مرکز میں 30 دن تک رکھا گیا جہاں اسے مسلسل جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر ٹارچر کیا گیا۔ اسرائیلی جلاد اس سے تفتیش کے دوران تشدد کے تمام ظالمانہ حربے استعمال کرتے رہے۔
الجلمہ حراستی مرکز میں اذیتوں کا نشانہ بنانے کے بعد جیل منتقل کرکے قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ اس دوران الجربونی کے اہل خانہ پر بھی تشدد کیا جاتا رہا۔ انہیں گرفتار کرکے الجربونی کے معاملے میں سخت دباؤ ڈالا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ الجربونی کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔
کئی ماہ تک جاری رہنے والے نام نہاد مقدمہ کی کارروائی کے بعد فوجی عدالت نےلینا الجربونی کو 17 سال قید کی سزا کا حکم دیا۔
سترہ سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد اسے ایک سے دوسری جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا۔ اس دوران وہ کئی بار سخت بیمار ہوئیں مگر صہیونی انتظامیہ نے ان کے علاج معالجے میں مجرمانہ غفلت برتی اور اسے کسی قسم کی طبی سہولت مہیا نہیں کی گئی۔
لینا کا کہنا ہے کہ مسلسل تشدد اور بیماریوں کے باعث اس کا جسم بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس کے دونوں پاؤں اور سر میں اب بھی اکثر درد رہتا ہے۔ وہ زیادہ دیر اور زیادہ دور تک پیدل نہیں چل سکتیں۔
سنہ 2011ء میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے لیے حماس کی جانب سے پیش کی گئی فہرست میں لینا کا نام بھی شامل کیا گیا تھا مگر صہیونی حکام نے انہیں رہا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ صہیونی فوج کی طرف سے کہا گیا تھا کہ لینا کے پاس اسرائیل کا ’بلیو کارڈ‘ ہے۔ اسے قیدیوں کے تبادلے کے تحت رہا نہیں کیا جاسکتا۔
’ام اسیرات‘
لینا الجربونی نے قید وبند کا زیادہ عرصہ ’ھشارون‘ قید خانے میں گذارا۔ اسرائیل کی یہ جیل خواتین قیدیوں کے لیے مختص ہے۔
لینا نے اس جیل میں پابند سلاسل دوسری فلسطینی اسیرات کو حوصلہ دیا، انہیں عبرانی زبان سکھانے کے ساتھ سلائی کڑھائی کے طریقے بھی سکھاتی رہیں۔ اس کے علاوہ اس نے جیل کے اندر ہی تجوید اور تفسیر قرآن کا بھی اہتمام کیا۔
ماضی میں جیل ایک ساتھ قید کاٹنے والی ایک دوسری فلسطینی خاتون منیٰ قعدان کاکہنا ہے کہ لینا گذشتہ 14 سال سے فلسطینی اسیرات کی نمائندہ تھیں۔ جیل انتظامیہ کے ساتھ خواتین اسیرات کے جتنے امور انجام پاتے وہ سب لینا ہی طے کرتیں۔ کسی بھی دوسری خاتون اسیرہ کو صہیونی جیل انتظامیہ کے ساتھ براہ راست کسی قسم کے رابطے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ ایک ماں کی طرح تمام اسیرات کو دشمن کی چالوں سے بچانے کی کوشش کرتی۔ ان کی عصمت کا تحفظ کرتی۔ انہیں عبرانی زبان سکھاتی۔
صرف یہی نہیں بلکہ وہ جیل میں قید خواتین کے لیے ایک نرس اور ڈاکٹر کا کام بھی کرتی۔ تمام خواتین چاہے وہ عمرمیں ان سے بڑی ہی کیوں ناہوں لینا الجربونی کا احترام کرتیں اور اس کی ہدایات پرعمل کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیل میں انہیں’اسیرات کی ماں‘ کا لقب دیا گیا۔
جیل میں کئی فلسطینی خواتین زچگی کے عمل سے گذریں۔ یوسف الزق، براء الصبیح اور عائشہ الھودلی نے جیل میں بچوں کو جنم دیا۔ لینا قدم قدم پران کے ساتھ رہیں اور ایک مہربان ماں کی طرح ان کی خدمت کی۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین قیدی انہیں’ماما‘ کہہ کر پکارتیں۔
’فلسطینی خاتون آہن کا خطاب‘
سنہ 2015ء میں ’القدس شہداء اسیران فاؤنڈیشن‘ نامی ایک تنظیم کی طرف سے لینا الجربونی کو ’فلسطینی خاتون آہن‘ کا خطاب دیا۔ وہ کسی تنظیم کی جانب سے یہ لقب پانے والی پہلی خاتون ہیں۔ یہ لقب انہیں کئی سال تک دشمن کی قید میں پوری جرات اور عزم استقلال کے ساتھ قید کاٹنے کے اعتراف میں دیا گیا۔ وہ ھشارون جیل سے گذشتہ روز رہا ہو کر اپنے گھر پہنچ گئی ہیں۔ ان کی رہائی پر جہاں پوری فلسطینی قوم اور تمام اسیران و اسیرات کو خوشی ہے وہیں جیل میں پیچھے رہ جانے والی اسیرات لینا کی کمی بھی محسوس کرتی ہیں۔