اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ نے کہا ہے کہ تحریک فتح کے ساتھ قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے دوبارہ مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب صرف پہلے سے طے شدہ مفاہمتی نکات پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے ایک بیان میں کہا کہ تحریک فتح مفاہمت کا عنوان بہ خوبی جانتی ہے۔ تحریک فتح اپنے مقرب ذرائع ابلاغ کے ذریعے حماس کو قومی مفاہمت ناکام بنانے کے لیے مورد الزام ٹھہرانے میں سرگرم ہے۔ تحریک فتح فلسطین کی نمائندہ جماعت ہے اور اس کے وفد کو غزہ داخلے کے لیے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
فلسطین تحریک فتح کے رہ نماؤں اور کارکنان کا بھی وطن ہے۔ وہ جب چاہئیں اور جہاں چاہئیں فلسطین کے کسی بھی علاقے میں آ جاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ دھمکیوں کی زبان سے قومی مفاہمت کو آگے بڑھانے والے دھمکیوں کی زبان استعمال نہیں کرتے۔ غزہ کی پٹی کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تیس فی صد کٹوتی بھی قومی مفاہمت کےحوالے سے طے پائے نکات کی خلاف ورزی ہے۔ اگر قومی مفاہمت کے تمام نکات پرعمل درآمد یقینی بنایا جاتا تو غزہ کےملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی نہ کی جاتی۔
غزہ کے لیے انتظامی کمیٹی کی منسوخی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رامی الحمد للہ کی زیرقیادت حکومت نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ غزہ کے مسائل کے حل کے لیے ایک مشترکہ انتظامی کو فعال بنانے کے بجائے اسے ختم کردیا گیا۔
حماس رہ نما نے لبنان میں قائم فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں متحارب فریقین میں تصادم کی شدید مذمت کی اور کہا کہ کسی بھی فریق کے لیے طاقت کے استعمال کا کوئی جواز نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیروت کے نواحی علاقے صیدا میں قائم عین الحلوہ پناہ گزین کیمپ میں کشیدگی اور فائرنگ کے نتیجے میں فلسطینی شہریوں کے جانی نقصان پرانہیں بہت دکھ اور افسوس ہے۔
ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے عین الحلوہ پناہ گزین کیمپ میں تنازعات کے حل کے لیے افہام و تفہیم کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ افواہوں اور بدامنی پھیلانے سے مسائل کا حل ناممکن ہے۔