روس نے امریکا کے ساتھ اُس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد شام کی فضائی حدود میں دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی فضائی واقعے کو روکنا تھا۔ یہ پیش رفت شام کے وسطی حصے میں ایک فوجی فضائی اڈے پر امریکا کے کروز میزائل حملے کے بعد سامنے آئی ہے۔ روسی وزارت خاجہ کی ترجمان ماريا زاخاروفا کے مطابق ان کے ملک نے صورت حال کا جائزہ لینے کے واسطے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
روس اور امریکا نے اکتوبر 2015 میں ایک معاہدے کے پروٹوکول پر دستخط کیے تھے جس میں بعض اصول اور پابندیاں بیان کی گئی تھیں تا کہ شام کی فضائی حدود میں دونوں ملکوں کے طیاروں کے درمیان کسی بھی واقعے کو پیش آنے سے روکا جا سکے۔
دوسری جانب ازبکستان میں موجود روسی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ جمعے کو صبح صادق کے وقت شام میں امریکی حملہ جارحیت ہے۔ اپنے ازبک ہم منصب کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرگئی لاؤروف نے کہا کہ ” اس میں ذار بھی شک نہیں کہ الشعیرات پر امریکی حملہ ایک جارحانہ کارروائی ہے۔ اس نے 2003 کی یاد تازہ کر دی ہے جب سلامتی کونسل سے رجوع کی بغیر ہی عراق پر حملہ کر دیا گیا تھا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے خان شیخون پر حملے کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کیے بغیر ہی شام کو نشانہ بنا ڈالا.. اور اس حملے کے بعد روس اور امریکا کے درمیان کسی بھی قسم کا تعاون ناممکن نظر آتا ہے۔
کرملن نے اپنے طور پر امریکی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے خود مختاری کی حامل ایک ریاست کے خلاف جارحیت ارو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔ کرملن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس کارروائی نے امریکا کے ساتھ تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ شامی حکومت کے پاس کیمیائی ہتھیار نہیں ہیں اور حالیہ حملہ جھوٹے دعوؤں کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
اس سے قبل الشعیرات کے فضائی اڈے پر امریکی میزائل حملے کے جواب میں پہلا ردّ عمل روسی پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں میں دفاعی کمیٹی کے سربراہ کی جانب سے آیا تھا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ” امریکی حملہ ام میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو سبوتاژ کر سکتا ہے”۔