پنج شنبه 01/می/2025

رام اللہ اتھارٹی کے استحصالی اقدام سے متاثرہ ملازمین!

جمعہ 7-اپریل-2017

فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کی پٹی کے ہزاروں ملازمین کی تنخواہوں میں اچانک 30 فی صد کمی نے فلسطینی عوامی، سیاسی، سماجی اور سرکاری حلقوں میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ غزہ کی پٹی میں رام اللہ اتھارٹی کی انتقامی سیاست کی بھینٹ چڑھنے والے سرکاری ملازمین سراپا احتجاج ہیں اور وہ تنخواہوں میں کٹوتی واپس لینے کے لیے پرزور مطالبہ کررہے ہیں۔ فلسطین کی نمایاں سیاسی قیادت حتیٰ کہ تحریک فتح کے غزہ کی پٹی میں نمائندہ رہ نماؤں نے بھی سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں کمی کو ملازمین پرمعاشی بم گرانے کے مترادف قرار دیا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگاروں نے خبردارکیا ہے کہ اگررام اللہ حکومت نے تنخواہوں میں کمی کا فیصلہ واپس نہ لیا توملک کے طول وعرض میں حکومت کے خلاف احتجاج کی پرتشدد تحریک شروع ہوسکتی ہے۔

متاثرہ ملازمین کی تعداد

مرکزاطلاعات فلسطین نے فلسطینی اتھارٹی کے ملازمین میں تن خواہوں میں کٹوتی کے معاملے ایک رپورٹ میں متاثرہ ملازمین کے اعدادو شمار بیان کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رام اللہ اتھارٹی کے حالیہ استحصالی حکم نانے کے نتیجے میں پونے دو لاکھ ملازمین براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ شہداء اور اسیران کے لواحقین کو شامل کرنے کے بعد یہ تعداد دو لاکھ سے تجاوز کرجاتی ہے۔

فلسطینی وزارت خزانہ کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق غزہ کے سرکاری ملازمین کو 160 سے 170 ملین ڈالر کی رقوم تنخواہوں کی مد میں جاری کی جاتی ہے۔ اوسط تنخواہ 3000 شیکل یعنی 750 امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔

غزہ کی پٹی کے جن ملازمین کو رام اللہ اتھارٹی کی جانب سے تن خواہیں دی جاتی ہیں۔ ان کی تعداد 25ہزار 577 ہے۔ 30 ہزار پولیس اور سیکیورٹی اہلکار اس کے علاوہ ہیں۔ مجموعی طور پر فلسطینی اتھارٹی 55 ہزار 577 غزہ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائی کی پابندی ہے۔

غزہ کی پٹی کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں کی کل مالیت 41 ملین ڈالر ماہانہ ہے۔ ریٹائرڈملازمین کی پنشن، شہداء اور اسیران کے اہل خانہ اور زخمیوں کو ملنے والے معاوضوں کو ملا کر کل 50 ہزار دالر کی رقم ادا کی جاتی ہے۔

اسرائیل کی جانب سے سال 2014ء میں ٹیکس ریونیو کی مد میں 1.818 ارب ڈالر ادا کیے گئے۔ ان میں غزہ کے لیے ٹیکس ریونیو کی مقدار 60 فی صد یعنی کل مالیت میں سے غزہ کو سالانہ 190 ارب ڈالر  بیان کی گئی جسے ماہانہ بنیادوں پر تقسیم کیا جائےتو یہ رقم 91 ملین ڈالر بنتی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کا سیاسی فیصلہ

فلسطینی سیاسی جماعتوں اور معاشی مبصرین نے رام اللہ اتھارٹی کی طرف سے غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے سیاسی انتقام پر مبنی فیصلہ قرار دیا ہے۔

مبصرین کاکہنا ہے کہ غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر شب خون مارنے کے اقدام کے پس پردہ صدر محمود عباس کا ہاتھ ہے۔ وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غزہ کے عوام پرمعاشی پابندیاں عاید کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر عباس دعویٰ کرتے ہیں کہ غزہ میں حماس نے اپنی متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے۔ حالانکہ صدر عباس بہ خوبی جانتے ہیں کہ غزہ کی پٹی کے جن 56 ہزار سرکاری ملازمین کو حکومت کی طرف سے تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں ان میں تحریک فتح کے ذیلی اداروں کے ملازمین بھی شامل ہیں اوران کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔

صدرعباس کے احکامات کے پرغزہ میں حماس اور فتح کے درمیان کشیدگی کے دوران 22 ہزار سرکاری ملازمین کو  ملازمت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 14 سینیر افسران کی تنخواہیں  اور ترقی روک دی گئی تھیں۔

فلسطینی تجزیہ نگار اور مصنف مصطفیٰ ابراہیم نے سنہ 2010ء میں اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ فلسطینی اتھارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں سرکاری ملازمین پر ماہانہ 75 ملین ڈالر کی رقم صرف کررہی ہے۔ مگراس وقت غزہ میں سرکاری ملازمین کی تعداد 60 ہزار ہونے کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔

مختصر لنک:

کاپی