فلسطینی اتھارٹی کی زیرانتظام نام نہاد قومی حکومت نے فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اچانک تیس سے 40 فی صد کمی کا اعلان کرکے محصورین غزہ پر ایک نیا معاشی بم گرادیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق رام اللہ میں وزیراعظم رامی الحمد اللہ کی زیرقیادت قائم حکومت نے غزہ کی پٹی کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں غیرمعمولی کمی کرکے نہ صرف غزہ کے عوام پر کا معاشی محاصرہ مزید سخت کرنے کی ظالمانہ روش اپنائی ہے بلکہ غزہ کے عوام کو بھی سخت مشتعل کردیا ہے۔
مارچ کے اختتام پر غزہ کے سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں کے انتظار میں تھے کہ یک دم انہیں یہ اطلاع ملی کہ فلسطینی اتھارٹی نے ان پر ایک نئی ’مہربانی‘ کرتے ہوئے ان کی تنخواہوں میں 30 سے 40 فی صد کردی ہے۔ انہیں مارچ کے مہینے سے کٹوتی کے بعد کم کی گئی تنخواہیں ملیں گی۔
فلسطینی اتھارٹی کے اس اقدام کی خبر سنتے ہی غزہ کے عوامی حلقوں میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ مقامی فلسطینی شہریوں اور سرکاری ملازمین نے رام اللہ اتھارٹی کی طرف سے تنخواہوں پر ڈاکہ ڈالنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کمی کومسترد کردیا ہے۔
دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی نے کہا ہے کہ اس نے یہ اقدام اتھارٹی کو درپیش مالی مشکلات کے پیش نظر کیا ہے۔تاہم فلسطینی عوامی حلقوں اور ملازمین نے رام اللہ اتھارٹی کے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کرپشن میں ڈوبی فلسطینی اتھارٹی اپنی کرپشن اور قومی خزانے کی لوٹ مار روکنے کے بجائے غزہ کے ہزاروں شہریوں کے منہ سے نوالہ چھین رہی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے سیاسی انتقام کا پردہ چاک
فلسطینی اتھارٹی کے ایک ذمہ دار ذریعے نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تنخواہوں میں کمی کے فیصلے کا اطلاق صرف غزہ کے ملازمین پر ہوگا، غرب اردن جہاں رام اللہ اتھارٹی کی مقرب اور وفادار جماعت ’فتح‘کی حکومت قائم ہے وہاں کے ملازمین پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ رام اللہ اتھارٹی کے عہدیدار کے اس انکشاف نے فلسطینی اتھارٹی کے سورماؤں اور مدارالمہام کی کینہ پروری، سیاسی انتقام اورعوام دشمنی کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔
غزہ میں قائم حکومت کوچونکہ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے فلسطینی اتھارٹی کے اقدام سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ رام اللہ انتظامیہ وہ غزہ کےعوام کو انتقامی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہی ہے۔ یہ اقدام فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے حماس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے دو روز بعد کیا گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فلسطینی ملازمین کا کہنا ہے کہ انہیں رام اللہ اتھارٹی کی طرف سے مشاہروں میں کمی کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ بنکوں کے سامنے تنخواہوں کےحصول کے لیے کھڑے فلسطینی ملازمین نے جب اپنی تنخواہوں میں کمی کا سنا تو وہ رام اللہ حکام کے خلاف سخت سیخ پا ہوئے ہیں۔
فلسطینی معاشی تجزیہ نگار عمر شعبان نے رام اللہ حکومت کے اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اچانک اور بغیر کسی پیشگی اطلاع پر کیا گیا ہے۔ اس لیے اس اقدام صداقت اور اس کے حقیقی اسباب کا پتا چلانا مشکل ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار حسام الدجنی نے اسے فلسطینی ملازمین کی تنخواہوں کا ‘قتل عام‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد صرف اور صرف غزہ کی پٹی کو سیاسی طور پر تنہا کرنا اور سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں فلسطینی اتھارٹی پر بوجھ نہیں بلکہ یہ رام اللہ اتھارٹی کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔رام اللہ اتھارٹی کو غزہ کے ملازمین کے لیے بیرون ملک سے امداد ملتی ہے۔ موجودہ فیصلے نے رام اللہ انتظامیہ کے دجل و فریب اور مکاری کو فلسطینی قوم پر واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قوم دشمنی اور سیاسی انتقام کی پالیسی کو بھی پوری قوم کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔
اقدام کے خطرناک نتائج
فلسطینی تجزیہ نگار شعبان نے کہاکہ رام اللہ اتھارٹی کی طرف سے غزہ کے ملازمین پر معاشی بوجھ ڈالنا، نئے ٹیکسوں کی آڑ میں ان کی تنخواہوں کی کٹوتی کرنا اپنے نتائج کے اعتبار سے انتہائی خطرناک اقدام ہے۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کے انتظامی، قانون ساز ادارے اور سیاسی ڈھانچے سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ فلسطینی اتھارٹی نے تنخواہوں میں کٹوتی کرکے تمام شعبہ ہائے زندگی کے سرکاری ملازمین کی مخالفت مول لی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے اس اقدام کے بعدغزہ کے عوامی حلقوں میں راماللہ اتھارٹی کے خلاف نفرت کے جذبات میں مزیداضافہ ہوگا۔ غزہ کے عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے مسائل کا حل فلسطینی اتھارٹی کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں بلکہ وہ غزہ کے عوام کے گردمعاشی محاصرہ مزیدسخت کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
غزہ کی معشیت پر نیا ڈاکہ
فلسطینی تجزیہ نگار حسام الدجنی نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کرکے غزہ کے عوام کی دولت پر حملہ آور ہے۔ اس طرح فلسطینی اتھارٹی غزہ کے ملازمین کی تنخواہوں سے ماہانہ 80 ملین ڈالر اور سالانہ 2 ارب ڈالر کی رقم اینٹھ رہی ہے۔
ایک دوسرے فلسطینی تجزیہ نگار سمیر حمتو نے کہا کہ غزہ کے ملازمین کی تنخواہوں میں کمی یا ان پر ٹیکسوں کا نفاذ غزہ کے عوام کا معاشی محاصرہ مزید سخت کرنے اور ان پرعرصہ حیات مزید مشکل کرنے کی سازش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کے غریب اور مفلوک الحال عوام کی بنیادی ضروریات پر حملہ آور ہے مگر اپنے اللے تللے کم کرنے اور بھاری بھرکم تںخواہوں میں کٹوتی میں کمی نہیں کررہی۔ فلسطینی اتھارٹی کا یہ اقدام اسے عوامی سطح پر مزید مشکلات سے دوچار کرے گا۔
ایک دوسرے فلسطینی تجزیہ نگار محمد ایوب ابو جیاب نے بتایا کہ غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پرحملہ رام اللہ اتھارٹی کو ماہانہ 50 ملین ڈالر کا فائدہ پہنچائے گی۔