قابض صہیونی ریاست نے فلسطینی اسیران اور شہداء کے ورثاء کو ایک نئی انتقامی سیاست کا نشانہ بنانے کے لیے نام نہاد قانون سازی شروع کی ہے۔
اسرائیل کے کثیرالاشاعت عبرانی اخبار’یدیعوت احرونوت‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ارکان کنیسٹ نے پارلیمنٹ میں ایک نیا مسودہ قانون پیش کیا ہے جس میں سفارش کی گئی ہے کہ فلسطینی شہداء اور اسیران کے اہل خانہ کو مالی مراعات فراہم کرنے پر فلسطینی اتھارٹی کو جاری کیے جانے والے فنڈز میں کٹوتی کی جائے۔
رپورٹ کے مطابق یہ مسودہ قانون ’الیعاذر شیٹرن‘ نے پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ اس مسودہ قانون میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے شہداء اور اسیران کے اہل خانہ کی مالی امداد کو ’دہشت گردی کی معاونت‘ قرار دیا گیا ہے۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی ان مزاحمت کاروں کے خاندانوں کو بھی مالی رقوم فراہم کررہی ہے جو اسرائیلی پرحملوں کےدوران جوابی کارروائیوں میں شہید یا گرفتار ہونے کے بعد طویل سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ اس لیے فلسطینی اتھارٹی کی ایسے فلسطینی عناصر کے اہل خانہ کی مالی مدد دہشت گردی کی معاونت کے مترادف ہے۔
اس نام نہاد مسودہ قانون میں کنیسٹ سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی مالی امداد میں کٹوتی کرے تاکہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے لواحقین اور ورثاء کو مالی امداد کی فراہمی کا سلسلہ روکا جائے۔
اخباری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سال 2016ء کے بجٹ میں فلسطینی اتھارٹی نے شہداء اور اسیران کے لواحقین کے لیے 1 ارب 10 کروڑ شیکل صرف کی۔
اخباری رپورٹ میں مسودہ قانون کے حوالے سے کہا گیاہے کہ فلسطینی شہداء اور اسیران کے لواحقین کے لیے مالی امداد فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان طے پائے اوسلو معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکسوں کی مد میں اسی صورت میں رقوم کی ادائی کا پابند ہے کہ بشرطیکہ فلسطینی اتھارٹی کسی ایسے گروپ کی مدد نہیں کررہی جو اسرائیل پرحملوں میں ملوث یا کسی بھی طرح اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں شامل رہا ہے۔ اگر فلسطینی اتھارٹی اسرائیل مخالف عناصر کے اہل خانہ کی مالی مدد کررہی ہے تو اسرائیل اس کے واجبات ادا کرنے کا پابند نہیں۔