فلسطینی قوم صہیونی دشمن کی ریاستی دہشت گردی اور معاشی پابندیوں کے بعد اب منظم آبی جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ پانی کے وسائل وذرائع پرصہیونی ریاست کے قبضے کےنتیجے میں فلسطینی عوام پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق 29 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس بار بھی یہ دن اہل فلسطین پر ایسے وقت میں آیا جب فلسطینی قوم صہیونی ریاست کی منظم آبی محاصرے اور پابندیوں کا سامنا کررہے ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارا، غرب اردن، وادی اردن اور بیت المقدس سمیت فلسطین کے تمام شہروں میں زیرزمین اور سطح زمین پرموجود پانی کے وسائل پرصہیونی ریاست قابض ہے۔
فلسطینی سماجی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی انجمنیں بار بار فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کی آبی جارحیت پر آواز بلند کررہی ہیں۔ عالمی سطح پر صہیونی اقدامات کی مذ اور فلسطینیوں کو پانی کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی شدید مذمت بھی کی جا رہی ہے مگر صہیونی ریاست پر اس کا کوئی اثرمرتب نہیں ہو رہا ہے۔
شمالی ودای اردن سے تعلق رکھنے والے مقامی فلسطینی شہری محمد الحروب نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صہیونی فوج نے اس کی پانی کی ٹینکی اور کاشت کاری کے لیے استعمال ہونے والا ٹریکٹر بھی چھین لیا ہے۔ صہیونی حکام کی طرف سے یہ اقدام الحروب کو اپنے کھیتوں اور مال مویشی کو پانی دینے سے محروم کرنے کے لیے کیا گیا۔ صہیونی حکام کا کہنا ہے کہ وادی اردن کے کسی فلسطینی کو اسرائیل کے قائم کردہ ’پانی کے ذخائر‘ سے استفادے کا حق نہیں ہے۔
الحروب نے شمالی وادی اردن میں اپنی غیرآباد زمینوں کو حسرت ویاس سے دیکھنے کے بعد یہودی کالونیوں میں سرسبز و شاداب کھیتوں پر ایک آہ سرد ڈالی۔ اس نے کہا کہ صہیونی حکام یہودی آباد کاروں کو پانی کی ہرطرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ پانی کے تمام سرچشمے صہیونیوں کے لیے کھلے ہیں مگر فلسطینی آبادی آبی وسائل سے محروم ہیں۔
صہیونیوں کا مطلق تسلط
مقامی سماجی کارکن مازن عواد نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فلسطین کے 85 فی صد آبی وسائل پرصہیونی ریاست اور یہودی آباد کار قابض ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے احتجاج اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے واویلے کے باوجود فلسطینیوں کو ان کا آبی حق نہیں مل رہا ہے۔ حتیٰ کہ فلسطینی علاقوں میں سیورج لائنیں اور زرعی مقاصد کے لیے بھی فلسطینی پانی استعمال نہیں کرسکتے۔
ایک سوال کے جواب میں مازن عواد نے بتایا کہ سنہ 1993ء میں فلسطینی پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان طے پائے سمجھوتے کے تحت فلسطینیوں کو آبی وسائل کا پورا پورا حق دیا گیا تھا۔
معاہدے کے آرٹیکل 40 کے شق اول میں واضح کیا گیا ہے کہ فلسطینی ان تمام علاقوں کے آبی وسائل سے استفادہ کرنے کے بھرپور حق دار ہیں چاہے وہ علاقے فلسطینی انتظامیہ کے کنٹرول میں ہوں یا نہ ہوں۔ مگر اس معاہدے کے باوجود فلسطینی شہری پانی کے ادنیٰ درجے کے حقوق سے بھی محروم ہیں۔
چونکا دینے والے اعدادو شمار
فلسطینی ادارہ شماریات کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی انتظامیہ فلسطینی کے بیشتر آبی وسائل پر قابض ہے۔ بحیرہ طبریا، بحر مردار اور دریائے اردن کے پانی کے وسائل کے علاوہ فلسطینیوں کو سالانہ 7کروڑ 50 لاکھ مکعب میٹر پانی حاصل کرنے کا حق ہے۔ دیگر حوضوں، چشموں، ندی نالوں اور مشترکہ آبی وسائل اس کےعلاوہ ہیں۔ مگر عملا فلسطینیوں کو سالانہ 110 ملین مکعب میٹر پانی ملتا ہے جو اوسلو معاہدے کا عشر عشیر بھی نہیں۔ سنہ 2000ء کے بعد اس کی مقدار 2 کروڑ ملین مکعب میٹر ہونی چاہیے تھی۔
صہیونی قابض انتظامیہ فلسطینی شہریوں کو آبی وسائل کے استعمال سے روکنے کے لیے کڑی شرائط عاید کرتے، انہیں کنوئیں کھودنے، پانی ذخیرہ کرنے کے لیے حوض بنانے اور غرب اردن کے سیکٹر’سی’ جو علاقے کا 60 فی صد رقبے پرمحیط ہے میں پانی کے منصوبوں سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
غزہ کے آبی وسائل کا محاصرہ
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے، وادی اردن اور بیت المقدس ہی کے فلسطینیوں کو پانی کے وسائل تک رسائی میں مشکلات کا سامنا نہیں بلکہ غزہ کے عوام بھی ایسی ہی سنگین صورت حال سے دوچار ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں پانی کا شدید بحران ہے اور سنہ 2020ء تک غزہ پانی، صحت اور ماحولیات کے بحرانوں کا سامنا کرسکتی ہے۔ غزہ کے ساحلی علاقوں میں زیرزمین سالانہ 100 ملین میٹر پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور عالمی بنک کی رپورٹس کے مطابق فلسطینی شہریوں کو یہودی آباد کاروں کی نسبت چار گنا کم مقدار میں پانی میسر ہے۔ فلسطینی آبادی نے گذشتہ برس فی کس 73 لیٹر پانی استعمال کیا جب کہ یہودی آبادکاروں کو اس کے چار گنا زیادہ پانی میسر رہا۔