جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینی دو شیزہ نےصہیونی ریاست کی زرعی اجارہ داری کیسے چیلنج کی؟

جمعرات 23-مارچ-2017

فلسطینی ہنرمند اور باہمت قوم صہیونی ریاست کے مظالم اور قابض دشمن کی اجارہ داری کے مختلف مکرو حیل کے خلاف بہ یک وقت برسر پیکار ہیں۔ میدان جہاد میں داد شجاعت دینے کے ساتھ ساتھ عام شعبہ ہائے زندگی میں بھی فلسطینی مردو زن صہیونیوں کی اجارہ داری کو بھرپور طریقے سے چیلنج کررہے ہیں۔

ایسی ہی ایک باہمت فلسطینی خاتون سماجی کارکن اور زراعت پیشہ انجینیر دعاء اسماعیل بھی ہیں جنہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے گھر کے قریب ایک چھوٹا سا باغ تیار کیا ہے جس میں ’گوبی’ کی کاشت کرکے صہیونی ریاست کی اجارہ داری کو ٹھوکر ماری گئی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق دعاء اسماعیل کا باغیچہ غرب اردن کے شمالی شہر طولکرم کے مشرقی قصبے عنبتا میں اس کے گھر سے متصل ہے۔ اگرچہ یہ باغ ایک دونم سے زیادہ نہیں مگر دعاء نے اسے ایک منفرد باغ میں تبدیل کررکھا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے دعاء نے بتایا کہ سبزیوں کی کاشت کے اس کے خیال کے پیچھے صہیونی ریاست کی زراعت میں اجارہ داری کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ ایک مشکل اور صبر آزما چیلنج ہے مگر اس کے نتیجے میں دیگر فلسطینی شہریوں میں بھی زراعت کے شعبے میں دلچسپی لینے اور مقامی مارکیٹ میں صہیونی ریاست کو شکست دینے کا جذبہ پیدا ہوگا۔

متبادل زرعی پروگرام

مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے دعاء اسماعیل نے کہا کہ اس کے ایک دونم رقبے پر پھیلے سبزیوں کے چھوٹے کھیت میں ’گوبی‘ کے 2200 پودے ہیں۔ چونکہ گوبی کا استعمال بہ کثرت ہوتا ہے اس لیے اس نے غرب اردن میں اپنے باغ کے لیے اس سبزی کا انتخاب کیا تاکہ صہیونی ریاست کی زراعت اور سبزیوں کی کاشت میں اجارہ داری کا مقابلہ کرتے ہوئے فلسطینی آبادی کو متبادل فراہم کیاجاسکے۔

ایک سوال کے جواب میں دعاء اسماعیل نے بتایا کہ اس کا پروگرام کئی حوالوں سے انفرادیت کا حامل ہے۔ باغیچے میں اگائی جانے والی سبزی کی نشو نما کے لیے مصنوعی کیمیائی مرکبات اور کھادیں استعمال نہیں کی جاتیں۔ اس کے لگائے گئے پودے دو ماہ کے اندر اندر کھانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔

طولکرم میں ایگری کلچر ریلیف کے ڈائریکٹر عاھد غانم نے  دعاء اسماعیل کے زرعی پروگرام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کا ہدف فلسطینیوں کو صاف ستھری سبزیاں فراہم کرنے کا متبادل راستہ فراہم کرنا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں عاھد غانم نے کہا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے کاشت کی جانے والی سبزیاں اپنے معیار کے اعتبار سے کئی منفی پہلو کی حامل ہوتی ہیں۔ ناقص اور مضر صحت ماحول میں کاشت کی جانےوالی سبزیوں کی کاشت کے لیے فیکٹریوں سے نکلنے والے پانی کا استعمال انہیں انسانی صحت لیے مفید نہیں بلکہ مضر بنا رہا ہے۔ اس لیےفلسطینیوں کو ایک متبادل زرعی پروگرام پیش کرنا چاہیے جو صحت کے معیار پرپورا اترنے کے ساتھ ساتھ پاک اور صاف ستھرا ہو۔

زندگی کا خواب

فلسطینی کاشت کارہ دعاء اسماعیل کا کہنا ہے کہ اس کا ایک دیرینہ خواب تھا کہ وہ اپنے گھر کے قریب پلاسٹ کی چھت سے ڈھانپا ایک باغ بنائے جس میں مختلف سبزیاں کاشت کی جائیں۔  نابلس کی جامعہ النجاح میں تعلیم سے فراغت کےبعد وہ دو سال تک بے روزگار رہی۔ سبزی کی کاشت کے پروگرام نے اسے مشغلہ اور پیشہ دونوں ایک ساتھ دیے دیے ہیں۔ اس کے اہل خانہ بھی کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

دعاء اسماعیل کےوالد پروفیسر عبدالحمید اسماعیل نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دعاء کا خواب اب پورے خاندان کا خواب بن چکا ہے۔ ہم سب مل کر باغ کو پانی دیتے، اس کی گوڈی تالی کرتے اور اس میں اگنے والی جنگی جڑی بوٹیوں کو تلف کرتے ہیں۔ اس پروگرام نے ہم سب گھر والوں کو متبادل معاشی ذریعہ بھی فراہم کردیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں دعاء نے کہا کہ اس کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں۔ تاہم اسے ابھی مناسب گاہکوں کی تلاش ہے۔ توقع ہے کہ فلسطینی اورعلاقائی زرعی ادرےبھی اس کی مدد کریں گے۔

دعاء کا کہنا ہے کہ میری خواہش ہے کہ سبزیوں کی کاشت کا اس کا شروع کردہ پروگرام طولکرم سے باہر نکل کر فلسطین کے دوسرے علاقوں تک پھیلے تاکہ صہیونی ریاست کی زرعی اجارہ داری کا حقیقی معنوں میں مقابلہ کیا جاسکے۔

مختصر لنک:

کاپی