فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے لیے قابض صہیونی ریاست نے خطیر رقم کا بجٹ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سنہ 2017 کے مالی سال کا بجٹ بیت المقدس میں اسرائیلی قبضے کے بعد اب تک کا سب سے بڑا بجٹ قرار دیا جاتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق تنظیم آزادی فلسطین کے زیرانتظام ’دفاع اراضی و مزاحمت یہودی آباد کاری‘ کے سرکاری دفتر کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس کی مقامی اسرائیلی حکومت نے 700 ملین شیکل کا بجٹ منظور کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی کرنسی میں یہ رقم ایک ارب 90 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ بجٹ ایک ایسے وقت میں منظور کیا جا رہا ہے جب صہیونی ریاست مشرقی بیت المقدس پر قبضے کے 50 سال پورے ہونے پر ’سلور جوبلی‘ کی تقریبات منا رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی بلدیہ نے بیت المقدس میں بھاری رقوم پلاننگ اور تعمیراتی منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق اگلے کچھ عرصے کے دوران 11 ہزار نئے مکانات کی تعمیر کی تجویز زیرغور ہے۔ اس دوران یہودی کالونیوں کے 24 نئے نقشوں کی منظوری دی جائے گی۔ اس کے علاوہ بیت المقدس میں 5 ملین مربع میٹر رقبے پر کمرشل اور تجارتی مقاصد کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور دیگر تعمیرات شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس میں اسرائیلی بلدیہ کے چیئرمین نیر برکات نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ وہ القدس کی سلور جوبلی کے موقع پر بڑی تعداد میں تعمیراتی منصوبوں کا اعلان کریں گے۔
رپورٹ میں بیت المقدس میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کا ذمہ دار صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں الزام عاید کیا گیا ہےکہ نیتن یاھو اور ان کی انتہا پسند حکومت بیت المقدس کی اراضی پر اپنا غاصبانہ تسلط مضبوط کرنے کے لیے خطیر رقوم کے بجٹ منظور کررہی ہے۔ بیت المقدس پر صہیونی ریاست کا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے پوری صہیونی ریاستی مشینری سرگرم ہے۔ صرف بیت المقدس ہی نہیں بلکہ اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے حال ہی میں شمالی رام اللہ میں بیت ایل یہودی کالونی کے گرد دیوار فاصل کی تعمیر کی بھی منظوری دی ہے۔