گذشتہ کچھ عرصے سے فلسطین کا مقبوضہ مغربی کنارا میدان جنگ کا منظر پیش کررہا ہے۔ ایک طرف صہیونی فوج اور نہتے فلسطینی اور دوسری طرف معصوم سیاسی کارکن اور عباس ملیشیا کے جلاد صفت اہلکار ہیں جو بے گناہ اور نہتے شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرکے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج نے ایک فلسطینی بلاگر باسل الاعرج کو شہید کیا تو فلسطینی حکام نے شہید اور اس کے اقارب کے ساتھ یک جہتی کے بجائے شہید کا ٹرائل کرنے کا اعلان کردیا۔ اس پر ستم رسیدہ فلسطینی عوام سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے باسل الاعرج شہید کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے عباس ملیشیا کو غنڈہ گردی سے روکنے کی کوشش کی۔
ایک طرف نہتے فلسطینی مظاہرین ہیں جوعباس ملیشیا کی دریدہ دہنی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ احتجاج کرنے والے سیاسی و سماجی کارکنوں، شہید الاعرج کے اہل خانہ، مختلف سیاسی جماعتوں کے رہ نماؤں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر عباس ملیشیا کے ترجمان عدنان ضمیری نے غیرملکیوں کا ایجنٹ، دشمن کے آلہ کار اور فلسطینی اتھارٹی کے خلاف پرامن صدائے احتجاج بلند کرنے کو رام اللہ اتھارٹی کے خلاف اعلان بغاوت قرار دیا۔
مگر یہ الزام نیا نہیں۔ جب سے غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کی ماتحت ملیشیا کا قیام عمل میں آیا ہے تب عباس ملیشیا اور اس کے مدارالمہام عناصر کا یہ چلن رہا ہے۔ وہ اپنے حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے والوں پر دشمن کا ایجنٹ ہونے کا با آسانی الزام عاید کردیتے ہیں۔
عدنان الضمیری اور اس کے دیگر ساتھی بہ خوبی جانتے ہیں کہ ایک فلسطینی کے مجرمانہ قتل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا جرم نہیں۔ خواتین، بچوں، سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور فوٹو گرافروں کا مظاہروں میں شرکت کرنا ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا نہیں بلکہ جب فلسطینی اتھارٹی کو نہتے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا ہوتا ہے اس کے لیے اس طرح کے سنگین الزامات کی با آسانی اڑ لی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عباس ملیشیا کے جلاد ایسے ہی ننگ انسانیت الزامات کے پیچھے چھپ کر نہتے فلسطینیوں پر وار کرتے ہیں۔
عوامی غم وغصے میں بہ تدریج اضافہ
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے جیسے جیسے مظاہرین پر دشمن کے آلہ کار ہونے کی پھبتی کسی جاتی ہے اور الزامات میں شدت آتی ہے۔ ایسے ہی شہریوں کے دلوں میں شہداء بالخصوص شہید الاعرج سے محبت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ فلسطینی شہریوں کی شہید فلسطینی بلاگر باسل الاعرج اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردیوں نے عباس ملیشیا کو مزید پاگل بنا دیا ہے۔ اگرچہ عوامی غم وغصہ کی لہر ٹھنڈی کرنے کے لیے عباس ملیشیا کے سینیر ذمہ داران نے تشدد کے حالیہ واقعات کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے مگر مقامی شہری اچھی طرح جانتے ہیں کہ قومی خزانے پر پلنے والے یہ ریلو کٹے قوم کے وفادار نہیں بلکہ صہیونی دشمن کے آلہ کار ہی ہوسکتے ہیں۔
طاقت کا بے تحاشا استعمال اسرائیلی فوج کا وطیرہ رہا ہے مگر اب یہی طرز عمل عباس ملیشیا نے بھی اپنا لیا ہے۔ وہ شہریوں کو طاقت کے استعمال سے خوف زدہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مگر حالیہ احتجاجی مظاہروں اور ان میں ہزاروں شہریوں کی شرکت نے عباس ملیشیا کے طاقت کے ہتھکنڈوں کو بے معنی ثابت کیا ہے۔
فلسطینی شہریوں بالخصوص صحافیوں پر تشدد کے واقعات کے بعد خود عباس ملیشیا کو سخت سبکی کا سامنا ہے۔ ترجمان عدنان الضمیری نے عوامی غم وغصے کو فرو کرنے کے لیے صحافیوں پر تشدد کے واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا مگر شہریوں نے اس اعلان کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ اس کے بعد ایک دوسرے عہدیدار ناصر ابو بکر نے کہا کہ جب تک صحافیوں پر تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جاتی اس وقت تک وہ پولیس کی تقریبات میں شرکت نہیں کریں گے۔
فلسطینی تجزیہ نگار خلیل شاہین کا کہنا ہے کہ تشدد اور الزامات فلسطینی اتھارٹی کا سرکاری رد عمل ہیں۔ کسی شہید کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ریلی نکالنے کا فیصلہ فلسطینی اتھارٹی نہیں بلکہ عوام کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے شہریوں کو احتجاج سے روکنے کی پالیسی کا فائدہ فلسطینی قوم کو نہیں صہیونی دشمن ہی کوہوسکتا ہے۔
تشدد کے مرتکب جلادوں کا محاسبہ
فلسطینی پریس کلبن کے رکن عاطف ابو الرب کا کہنا ہے کہ صحافیوں اور نہتے سیاسی کارکںوں پر تشدد کرنے والے پولیس اہلکار یا افسر اصل ذمہ دار نہیں بلکہ اصل ذمہ دار وہ عناصر ہیں جنہوں نے نہتےمظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ اس لیے اگر محاسبہ ہونا ہے تو سب سے پہلے ان لوگوں کا ہونا چاہیے جنہوں نے فلسطینی مظاہرین پر تشدد کے استعمال کی ہدایت کی یا اجازت دی ہے۔
فلسطینی صحافی کا کہنا ہے کہ نہتے مظاہرین پر تشدد میں خود فلسطینی اتھارٹی بھی ملوث ہے، کیونکہ مظاہرین پر تشدد کے استعمال کے ہتھکنڈوں کے پیچھے فلسطینی اتھارٹی ہی کے فیصلے ہیں۔
فلسطینی سماجی کارکن خالد منصور کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اس کے سیکیورٹی اداروں کو نہتے مظاہرین، سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف طاقت کےاستعمال سے روکنے کے لیے مربوط مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی ملیشیا کے تشدد کے مظاہر دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ ایک طرف فلسطینی اتھارٹی انسانی حقوق کے علم دار ہونے کی دعوے دار ہے اور دوسری طرف پرامن احتجاج کرنے والوں کو بھی سنگین مجرم قرار دےکران کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
شہداء کی توہین
فلسطینی اتھارٹی اور اس کے تمام ذیلی اداروں کو فلسطینی شہداء کا امین اور محافظ ہونا چاہیے مگر فلسطینی قوم کے کندھوں پر ایک ایسی انتظامیہ مسلط ہے جو شہداء کے خون کی حفاظت کیا کرے گی الٹا شہداء کی توہین کی مرتکب ہو رہی ہے۔
شہید باسل الاعرج کے والد نے کہا کہ جب فلسطینی اتھارٹی کے جلادوں نے ان پر تشدد کیا تو وہ یہ سوچتے رہ گئے کہ یہ لوگ شہداء کے کیسے محافظ ہیں۔ یہ تو مظاہرین پر طاقت کا استعمال کرکے شہداء کی ارواح کو بھی اذیت پہنچا رہے ہیں۔ شہید باسل الاعرج کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی پر عباس ملیشیا کے جلادوں کا تشدد شہداء کی کھلے عام توہین کے مترادف ہے۔
شہید کے والد نے کہا کہ جب عباس ملیشیا کےاہلکار مظاہرین پر اندھا دھند لاٹھیا برسا رہے تھے تو انہوں نے پولیس اہلکاروں کو شہید کی کرامت کا بھی واسطہ دیا مگر انہوں نے شہید کی عزت کی آواز پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔
یوں عباس ملیشیا کی طرف سے فلسطینی شہداء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والوں پر ہولناک تشدد بجائے خود بیرونی ایجنڈے کی تکمیل، قوم سے خیانت اور دشمن کے ساتھ تعاون کے مترادف ہے۔