فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے فراہم کردہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1967ء کے بعد اسرائیلی عقوبت خانوں میں 15 ہزار فلسطینی خواتین کو اذیتیں دی گئیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی محکمہ امور اسیران کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران اسرائیلی فوج کی طرف سے کریک ڈاؤن کےدوران فلسطینی خواتین کی گرفتاریوں کے تناسب میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت بھی اسرائیل کی بدنام زمانہ جیل ’’ھشارون‘‘ میں 56 فلسطینی خواتین پابند سلاسل ہیں۔ ان میں 16 نابالغ بچیاں ہیں جب کہ 11 خواتین مختلف نوعیت کی بیماریوں کا شکار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سنہ 2016ء کے دوران اسرائیلی فوج نے 170 فلسطینی خواتین کو حراست میں لیا۔ ان میں دو خواتین اب بھی انتظامی حراست کی پالیسی کے تحت قید ہیں۔ ان میں صباح فرعون احسان دبابسہ بدستور انتظامی حراست کے تحت پابند سلاسل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینی اسیرخواتین پر تشدد کے ہرطرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ خواتین کو قید تنہائی، اہل خانہ اور اقارب سے ملاقات سے محروم، علاج معالجےمیں لا پرواہی جیسے ہتھکنڈوں کا عام سامنا ہے۔
سنہ 1987ء میں پہلی تحریک انتفاضہ کے دوران اسرائیلی فورسز نے 3000 فلسطینی خواتین کو حراست میں لیا گیا۔ دوسری تحریک انتفاضہ میں 2000ء میں 900 خواتین کو حراست میں لیا گیا تھا۔ سنہ 2015ء میں شروع ہونے والی انتفاضہ القدس کے دوران بھی سیکڑوں خواتین کو حراست میں لیا گیا جب کہ 27 خواتین کو شہید کیا گیا۔