اسرائیل میں کیے گئے ایک تازہ سروے میں کی گئی ایک رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ یہودی آباد کاروں کی اکثریت فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر ایک نئی جنگ مسلط کرنے کی حامی ہے۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی ’1‘ پر کیے گئے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے فوجی کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ غزہ میں حماس کے خطرے سے نمٹنے کے لیے فوجی کارروائی ضروری ہے۔ سروے میں 43 فی صد رائے دہندگان نے غزہ کی پٹی پر حملے کی حمایت کی۔
رائے دہندہ یہودی آباد کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں حماس کو راکٹ حملوں اور مستقبل میں اسرائیل کے لیے سیکیورٹی ریسک بننے سے روکنے کے لیے اس کے خلاف طاقت کا استعمال ناگزیر ہے۔
سروے میں حصہ لینے والے 29 فی صد یہودیوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات حماس کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں جب کہ 12 فی صد یہودیوں کا کہنا ہے کہ کسی قسم کے مذاکرات اور جنگ کی ضرورت نہیں، جیسے چل رہا ہے اسے ایسے ہی چلنے دیا جائے۔
سروے میں شامل 42 فی صد یہودی آباد کاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کا اسرائیلی فوج کی طرف سے دیا گیا جواب نا کافی ہے۔ 39 فی صد یہودیوں نے موجودہ رد عمل کو کافی قرار دیا جب کہ نو فی صد کا کہنا تھا کہ موجودہ رد عمل انتہائی طاقت ور ہے۔
یہودیوں کی اکثریت نے اسرائیلی وزیردفاع آوی گیڈور لائبرمین کی پالیسیوں کی مخالفت کی۔ 53 فی صد یہودیوں کا کہنا تھا کہ وہ لائبرمین کی غزہ کی پٹی کے بارے میں پالیسیوں کے حامی نہیں جب کہ 35 فی صد نے لائبرمین کی پالیسیوں کی مخالفت کی۔
خیال رہے کہ گذشتہ دس سال کے دوران غزہ کی پٹی پر اسرائیل تین بار جنگیں مسلط کرچکا ہے۔ سنہ 2014ء میں آخری بار مسلط کی گئی جنگ کے نتیجے میں 578 بچوں سمیت 2323 فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔