فلسطین کے عسکری امور کے تجزیہ نگار جنرل واصف عریقات نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی طرف سے کسی نئی جنگ مسلط کیے جانے کے امکانات، خدشات اور جنگ نہ ہونے کے امکانات پرمبنی تفصیلی انٹرویو دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق تین جنگجوں میں شکست فاش کے بعد ایک اور جنگ مسلط کیے جانے کی حماقت کا امکان کم ہے۔
جنرل واصف عریقات نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ کو خصوصی انٹرویو میں کہا کہ صہیونی ریاست کے سامنے بھی یہ سوال موجود ہے کہ تین جنگجوں میں مٹھی بھر مجاھدین کےہاتھوں شرمناک شکست کےبعد آیا صہیونی ریاست کس مقصد کے لیے ایک بار پھر غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کرے گی۔
اُنہوں نے غزہ کی پٹی پر جنگ کے امکانات نہ ہونے کے حوالے سے کہا کہ کچھ ایسی زمینی حقائق موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے اسرائیل غزہ پر کوئی نئی جنگ مسلط کرنے کی حماقت نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود اگرصہیونی ریاست نے جنگ مسلط کرنے کی حماقت کی تو اس کے سنگین نتائج بھی اس کا مقدر ہوں گے
جنرل عریقات نے کہا کہ غزہ پر نئی جنگ میں کامیابی کے امکانات کا نا ہونا، مشرق وسطیٰ میں امریکا کے اثرو نفوذ میں کمی، عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ، عالمی امداد میں کمی، اسرائیلی جارحیت پر پردہ ڈالنے کی کوششوں، فلسطینیوم کی مزاحمت میں اضافہ، بائیکاٹ تحریک کے نتیجے میں عالمی سطح پر اسرائیل کی سیاسی، سفارتی اور معاشی مشکلات میں اضافہ، اندرون اسرائیل کشیدگی، مشترکہ ہدف کا شعور اور یہودی آباد کاروں کا غلبہ وہ محرکات ہیں جو اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔
جنگ کی تیاری یا دباؤ ڈالنے کا حربہ
فلسطینی تجزیہ نگار جنرل واصف عریقات نے کہا کہ علاقائی تغیرات، عالمی طاقتوں کےدرمیان طاقت کے توازن کا بگاڑ اور خطے میں کسی ایک ملک کے لیے مفادات کے پرامن حصول کے ذرائع کا محدود ہونا صہیونی ریاست کو غزہ پر فوج کشی سے روکے گا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں اسرائیل نے امریکا اور یورپی یونین کے بل بوتے پر غزہ پر جنگیں مسلط کیں۔ اگرچہ امریکا اب بھی اسرائیل کی مدد اور حمایت کررہاہے مگر یورپی یونین اسرائیل پر سخت برہم ہے۔ جس طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی تنہائی کا شکار ہیں، ان کے لیے بھی اسرائیل کی مطلق مدد مشکل ہے۔
سنہ 2016 اور 2017ء کے لیے اسرائیلی انٹیلی کی جانب سے جاری کردہ خطرےکی انڈیکس میں غزہ کی پٹی کو خطرے کے پانچویں مگر کسی بھی جنگ کا پہلا میدان جنگ متوقع قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ صہیونی فوج غزہ کی پٹی پر محدود فضائی اور زمین کارروائی کرکے اور سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعے محدود اہداف کو نشانہ بنائے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو غزہ کی پٹی میں فلسطینی مجاھدین کی تیاریوں کا حقیقی اندازہ نہیں۔ صہیونی انٹیلی جنس ادارے نہیں جانتے کہ غزہ میں مجاھدین کے پاس کس نوعیت، کیفیت اور درجے کی مزاحمتی صلاحیت موجود ہے۔ نیز جنگ کی صورت میں یہودی بستیوں اور آباد کاروں کو لاحق خطرات کا تدارک کیسے کیا جائے گا۔
بارڈر اور سرنگیں
تجزیہ نگار واصف عریقات کا کہنا ہے کہ فلسطینی مجاھدین کے پاس دیگر جنگی ہتھیار چاہے جو بھی ہوں مگر سرنگیں ایک تزویراتی ہتھیار ہے۔ دشمن کے خلاف یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کا اس کے پاس کوئی خاطر خواہ توڑ نہیں۔ شاید انہی سرنگوں سے اسرائیل کو سب سے زیادہ خطرہ اور خوف بھی ہے۔ اسرائیل کو فلسطینی مزاحمت کاروں کی کھودی گئی سرنگوں میں ماضی میں بھی غیرمعمولی نقصان اٹھانے کاتجربہ ہے۔
ان تک اسرائیل نے امریکا کی مالی اور ٹیکنالوجی کی مدد کے ذریعے فلسطینی سرنگوں کا توڑ کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔ سرنگوں کے خطرات کم سے کم کرنے کے لیے اربوں ڈالر پھونک ڈالے ہیں مگر حال ہی میں کسی نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو سے پوچھا کہ آپ کا فلسطینیوں کی سرنگوں کے بارے میں کیا پلان ہے تو ان کا کہناتھا کہ وہ اس حوالے سے کوئی پلان نہیں کرسکے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی سرنگوں کے مقابلے میں ان کی تیاری کمزور ہے۔
غزہ کی پٹی سے جزیرہ نما النقب پر کسی راکٹ حملے یا کشیدگی کی صورت میں صہیونی ریاست غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی سرنگوں پر بمباری کرتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی کی سرحدی سیکیورٹی اور مانیٹرنگ بھی بڑھا دی ہے۔
واصف عریقات نے کہا کہ سنہ 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی فوج نے بحریہ کے ذریعے حملہ کیا۔ اسرائیلی کمانڈوز کو صیدا کے ساحل پر اتار گیا۔ ریت کامیدان عبور کرنے کا یہ واحد پل ہے۔ مگر اب صہیونی غزہ کی پٹی پر زمینی، فضائی اور بحری اطرف سے ایک ہی وقت میں حملے کرتے ہیں۔
عریقات کا غزہ پر بمباری کے لیے سمندر کی طرف سے کارروائی کو خارج از امکان قرار نہیں دیتے۔ مگر اس وقت فوج کئی قسم کے داخلی بحرانوں سے گذر رہی ہے، فوجیوں کے جذبے اور حوصلے بھی پست ہیں۔