اسرائیلی حکومت نے جنوبی فلسطین کے جزیرہ نما النقب میں نئے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی ہے۔ دوسری جانب النقب میں انسانی حقوق کی انجمنوں نے صہیونی اسکیم کو فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی سازش قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی وزیر زراعت کی جانب سے جزیرہ نما النقب میں ’وسط بدوی عرب‘ اسکیم کی تجویز کے لیے تین ارب شیکل کی تجویز پیش کی تھی جسے گذشتہ روز کابینہ کےاجلاس میں منظور کیا گیا۔
دوسری جانب فلسطینی انسانی حقوق کی تنطیموں نے اسرائیلی حکومت کے نام نہاد ترقیاتی منصوبے کو مقامی عرب دیہاتیوں کی جبری بے دخلی، ان کے مکانات کی مسماری اور املاک پر قبضے کی سازش قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی بہبود کے اداروں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ النقب میں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ حکومت کی مقامی فلسطینی آبادی کے خلاف واضح ایجنڈے کا حصہ ہے۔
مقامی فلسطینی شہریوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ النقب کے دیہی علاقوں کے لیے اسرائیلی حکومت نے جو بجٹ تیار کیا ہے اس کا فلسطینی شہریوں کی ضروریات اور ان کے مطالبات سے کوئی تعلق نہیں۔ اگلے پانچ سال کے لئے صہیونی حکومت نے تین ارب شیکل کا جو بجٹ منظور کیا ہے وہ فلسطینی آبادی کی جبری بے دخلی، مکانات مسماری اور فلسطینیوں کی املاک پر آباد کاری کے ظالمانہ منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا۔
النقب کی مقامی فلسطینی عرب قیادت نے ’ڈیلی 48‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے منظور کردہ بجٹ النقب پر اسرائیل کا سیاسی ایجنڈا مسلط کرنے کی سازش ہے۔ یہ بجٹ فلسطینی عرب آبادی کی بہبود اور ترقی کے لیے نہیں بلکہ فلسطینیوں کی در بدری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
النقب میں سپریم فالو اپ کمیٹی کے چیئرمین السید سیعد خرومی نے کہا کہ النقب کے لیے منظور کردہ بیشتر بجٹ صہیونی ریاست کی مخصوص پالیسیی کا حصہ ہوتے ہیں۔ بہ ظاہر یہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ [اسرائیلی] حکومت عرب آبادی کی فلاح و بہبود کے لیے فلاں اور فلاں اسکیمیں منظور کررہی ہے مگر عملا فلسطینی اپنے مکانات مسماری، زراعت اور باغات کی تباہی، املاک پر اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے قبضوں اور جبری گھر بدری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ صہیونی حکومت نے پانچ سال کے دوران ۔ انہوں نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ صہیونی حکومت نے پانچ سال کے دوران 30 ملین شیکل کی رقم سے فلسطینی آبادی والے علاقوں میں شجر کاری کا اعلان کیا گیا مگر اس اعلان پرعمل درآمد اپنی جگہ فلسطینیوں کے پہلے سے لگائے گئے درخت اکھاڑنے کے لیے اسرائیلی فوج اور ریاستی میشنری ہمہ وقت سرگرم رہتی ہے۔