اسرائیلی حکومت نے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس اور وسطی شہر رام اللہ کے درمیان ایک نئی یہودی کالونی بسانے کی منظوری دی ہے۔ یہ کالونی نابلس کے نواحی علاقے ’جالود‘ میں تعمیر کی جائے گی۔
فلسطینی جالود دیہی کونسل کے چیئرمین عبداللہ الحاج محمد انہیں جو اطلاعات ملی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی ریاست ’شفوت راحیل‘ کالونی کے قریب فلسطینیوں کی زرعی اراضی پر ایک نئی بستی بسانے کے لیے کوشان ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی سول انتظامیہ کے زیرانتظام پلاننگ کونسل کی کمیٹی برائے یہودی آباد کاری نے اس نئی کالونی کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے نئی یہودی کالونی کی تعمیر کے ساتھ سورج لائن بنانے اور فلسطینی شہریوں کی زرعی اراضی کو یہودی آباد کاروں کے مکانات کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کچھ مکانات قریبی فلسطینی قصبے ’ترمسعیا‘ میں بھی تعمیر کیے جائیں گے۔
الحاج محمد کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست نے کچھ عرصہ قبل یہودی کالونی کے لیے استعمال کی جانےوالی جگہ کو صہیونی ریاست کی ملکیت قرار دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ نئی یہودی کالونی کے قیام کی صورت میں اسرائیلی حکومت فلسطینیوں سے جالود قصبے کی 600 اور ترمسعیا قصبے کی 150 دونم اراضی غصب کرے گی۔ یہ اراضی صدیوں سے فلسطینی شہریوں کی ملکیت ہے اور سنہ 1950ء سے یہاں فلسطینیوں نے زیتون کے درختوں کی کاشت اور دیگر پھل دار پودوں کے باغات بنا رکھے ہیں۔
فلسطینی عہدیدار نے بتایا کہ اگر صہیونی ریاست نے ان کی اراضی پر یہودیوں کے لیے کانی بنانے کا کام شروع کیا تو وہ اسرائیلی سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے جالود اور ترمسعیا میں کالونی قائم کرنے کے اعلان کو فلسطینی اراضی غصب کرنے کو فلسطینی اراضی پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش قرار دیا۔