حال ہی میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک نیا ظالمانہ قانون منظور کیا ہے جس کی رو سے حکومت کو فلسطینیوں کی نجی اراضی یہودی کالونیوں کے قیام کے لیے استعمال میں لانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اس قانون کی منظوری کے بعد بیت المقدس اور غرب اردن میں فلسطینیوں کی نجی ملکیتی اراضی پر تعمیر کیے گئے ہزاروں مکانات کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک ویڈیو گرافک کی شکل میں صہیونی ریاست کے ’قانون الحاق‘ کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔
صہیونی قانون الحاق کی منظوری کے بعد اسرائیلی عدالتوں کو بھی فلسطینیوں کی نجی اراضی پر تعمیرات روکنے یا پہلے سے تعمیر کی گئی کالونیاں ختم کرانے کا فیصلہ دینے کا اختیار نہیں ہوگا۔
صہیونی ریاست کی جانب سے اراضی کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے فلسطینی مالکان کو دھونس دھاندلی اور دباؤ کے ساتھ چند پیسوں پران کا منہ بند کرانے کی کوشش کی گئی جسے صہیونی قانون میں ’معاوضہ‘ کہا گیا ہے۔
یہ قانون 23 دسمبر 2016ء کو منظور کی جانے والی سلامتی کونسل کی قرارداد کے چند ماہ کے بعد منظور کیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کی تمام سرگرمیاں فوری طور پر بند کردے۔
قانون الحاق
یہ قانون فلسطینی علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کی گئی یہودی کالونیوں کو قانونی تحفظ دینے کے لیے منظور کیا گیا۔
اس قانون کے تحت یہودی آباد کاروں کو بسانے کے لیے فلسطینیوں کی نجی ملکیتی اراضی پرصہیونی حکومت کو ہاتھ ڈالنے کا موقع فراہم کرے گا۔
اگر یہودی شرپسند فلسطینیوں کی املاک اور زمین پر قابض ہوجائیں تو یہودیوں کو اس املاک اور اراضی کا مالک سمجھا جائے گا اور فلسطینی شہریوں کو ان سے اپنی املاک واپس کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔
متاثرہ فلسطینی شہری اپنی املاک اور اراضی کا معاوضہ طلب کریں گے مگر انہیں املاک واپس لینے کا حق نہیں ہوگا۔
یہ قانون غرب اردن کے سیکٹر C میں بسنے والے فلسطینیوں کو زبردستی وہاں سے نکالنے، ان کی املاک پر یہودیوں کو بسانے اور اسے یہودی ریاست میں ضم کرنے کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔
سیکٹر C یا جسے ’سیکٹر ’ج‘ بھی قرار دیا جاتا ہے غرب اردن کی کل اراضی کا 70 فی صد ہے۔