فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی ماہر امور نباتات نے کھجوروں کے درختوں اور اس کے پھلوں کے لیے انتہائی تباہ کن سمجھے جانے والے’سرخ سونڈی‘ کے نام سے مشہور کیڑے سے بچاؤ کا حیران کن علاج دریافت کیا ہے۔ فلسطینی محقق کا نو دریافت شدہ طریقہ علاج نہ صرف فلسطین میں کھجور کے کسانوں کے لیے خوش خبری ہے بلکہ اس علاج کو کھجور پیدا کرنے والے دوسرے ملکوں کے کاشت کاروں کے لیے بھی خوش کن پیغام قرار دیا جا رہا ہے۔
محمد الھندی کا دریافت کردہ علاج ماحول دوست ہونے کے ساتھ ساتھ روایتی کیمیائی کیڑے مار اسپرے کی نسبت کئی گنا زیادہ موثر اور ہرقسم کے منفی اثرات سے پاک ہے، کیونکہ کیمیائی کیڑے مار اسپرے اور اس قبیل کے تمام دوسرے علاج زراعت کے لیے مفید ہونے کے بجائے ماحولیات کی تباہی کا موجب بنتے ہیں۔
الگ کھمبیوں کی مدد سے کھجوروں کے لیے مضر سمجھے جانے والے مرض کا طریقہ علاج غزہ میں قائم اسلامی یونی ورسٹی کے سائنس کالج میں ٹیکنالوجی ڈیپارٹ منٹ سے وابستہ محقق محمد الھندی کی ایجاد ہے۔ کھجوروں کے درختوں اور اس کے پھلوں کے لیے نقصان ’سرخ سونڈی‘ کی تشخیص اکتوبرسنہ 2011ء میں ہوئی تھی اور اس کے تدارک کے لیے تحقیقات کا آغاز 2014ء میں ہوا۔
کجھوروں کے لیے حیات آفریں علاج کے موجد محمد الھندی نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ سے نو دریافت کردہ علاج کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی سائنسی تحقیق غزہ کے گنجان آباد علاقے کے شہریوں بالخصوص کسانوں اور زراعت پیشہ افراد کے لیے انتہائی منافع بخش ہے۔
جدید اور موثر علاج
ایک سوال کے جواب میں محمد الھندی نے کہا کہ ’پھپھوند‘[Fungus] کا طریعہ علاج روایتی کیمیائی کیڑے مار طریقہ علاج کا متبادل اور انتہائی موثر وفعال طریقہ علاج ہے۔ کیمیکل سے تیارکردہ کیڑے ماراسپرے مفید ہونے کے بجائے انسانی اور حیوانی زندگی کے لیے بھی انتہائی تباہ کن ہے۔ اس کی بعض اقسام تو عالمی سطح پرزہریلی قرار دے کر استعمال کے لیے ممنوع قرار دی گئی ہیں۔ کجھور کی سونڈی کو ختم کرنے لیے جو کیمیکل استعمال کے جاتے ہیں وہ غزہ کی پٹی میں زیرزمین پانی کے ذخائر میں شامل ہو کر اسے بھی زہریلا بنانے کا موجب بن رہے ہیں۔
اس کےعلاوہ کیمیائی طریقہ ہائے علاج کرم کُش ہونے کے بجائے زرعی اجناس کے امراض کو مزید پھلنے پھولنے میں مدد گار بنتے ہیں۔ زیرزمین پانی کا آلودہ ہونا دوسرا خطرناک نتیجہ ہے۔ اس طرح اگر پھپھوند اور مشروم کے طریقہ علاج کو اپنایا جائے تو نہ صرف کھجوروں کو سرخ سونڈی سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ دوسری فصلوں اور زرعی اجناس کو بھی بچانے کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی آلودگی اور امراض سے بچایا جاسکتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگارسے گفتگو کرتے ہوئے الھندی نے کہا کہ تجربے اور سائنسی تحقیق سے دو طرح کے مشروم [فطر] سامنے آئے۔ ان دونوں میں سونڈیوں کے انڈوں[بیضوں] کے مارنے کی شرح 100 فی صد ہے۔ البفاریا مشروم میں لاروا اور بڑے حشرات الارض کو تلف کرنے کی شرح بھی 100 فی صد اور ’میٹار رایزم‘ میں یہ شرح 90 فی صد ہے۔
محمد الھندی نے اپنے طریقہ علاج کے بارے میں تیار کردہ سائنسی تحقیق کے لیے ’مالیکیولر تشخیص اور لیبارٹری تقییم برائے مشروم، مثلا البفاریا اور میٹارائزم اور ان کا کھجوروں کو سرخ سونڈی اور حشرات الارض کے لیے استعمال‘ کا عنوان دیا ہے۔
الھندی نے بتایا کہ اس تحقیق کی تیاری میں ہرسائنسی تجربے کے دوران وہ کیمیائی مرکبات کو مشروم کے مرکبات سے درمیان تقابل کرتے اور دونوں مرکبات میں حشرالات الارض کو تلف کرنے کی شرح کا جائزہ لیتے۔ ان کے تجربات سے یہ ثابت ہوا کہ کیمیائی مرکبات سے حشرات لارض کو تلف کرنے کی زیادہ سے زیادہ شرح 35 فی صد ہے۔ جب کہ مشروم کی دونوں اقسام میں یہ شرح نوے سے سو فی صد ہے۔
اسٹڈی کے تفصیلات
جب محمد الھندی سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے کجھور کے پودوں اور پھلوں میں لگنے والے کیڑے کا علاج کیسے شروع کیا؟ تو انہوں نے بتایا کہ غزہ میں کھجور کے پودوں اور اس کے پھلوں میں کیڑا لگنے کا انکشاف اکتوبر 2011ء میں غزہ کے علاقے رفح میں ہوا۔ غالبا یہ مرض مصر سے غزہ میں درآمد ہوا۔ مصر سے کھجور کے لائے گئے خوشوں سے یہ کیڑا غزہ پہنچا۔ کھجور کے لیے یہ انتہائی مہلک اور تباہ کن سمجھا جاتا ہے۔ اس سے قبل اس طرح کے حشرات الارض غزہ سےباہر دوسرے عرب ملکوں میں کھجوروں کے باغات میں سامنے آچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں کھجوروں کی ویکسین کے بہ کثرت پھیلاؤ نے کھجوروں کو پودوں اور پھلوں کو سونڈی سے دوچارکیا۔ یہ مرض تیزی کے ساتھ غزہ کے تمام اضلاع میں پھیلا مگر اس کے علاج کے لیے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ضروری تھا ک جیسے ہی مرض سامنے آیا تھا اس کے ساتھ ہی مضر صحت کیڑوں کی تلفی کے لیے حیاتیاتی طریقہ علاج اپنایا جاتا۔
آخر کار انہوں نے دوسرے ماہرین کی ایک ٹیم کے ساتھ مل کر البفاریا مشروم اور میٹارائزم کو کھجور کی سونڈی سے نجات کے لیے بہ طور علاج اپنانے پر تحقیق شروع کی۔ یہ دونوں طریقہ ہائے علاج ماحول دوست ہیں اور ان کا انسانی، حیوانی اور نباتاتی زندگی پرکسی قسم کا کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔
البفاریا اور میٹارائزم مشروم کا طریقہ علاج ماحول کو تباہ کرنے والے حشرالات الارض کو تلف کرنے میں غیرمعمولی طورپر مدد گارہیں۔ یہ ماحول دشمن کیڑو کے دشمن ہیں۔
الھندی نے بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 2014ء میں غزہ میں اسلامی یونیورسٹی میں اس تحقیق پر کام شروع کیا۔ اس تحقیق کی تیاری میں نباتات و مشروم کے پروفیسر ڈاکٹر عبود القیشاوی، پروفیسر اشرف الشافعی شامل تھے جب کہ پروجیکٹ کی نگرانی کی ذمہ داری پروفیسر محمد الھندی کی تھی۔
لیبارٹری ٹیسٹ اور تشخیص کی کامیابی
ڈاکٹر محمد الھندی نے بتایا کہ دونوں طرح کے مشروم کو تجرباتی واسطوں کے ذریعے ان کی ماہیت کے مطابق پہلے ایک دوسرے سے تھلگ کیا گیا۔ اس کے بعد ان کے غذائی واسطوں کا کالونیوں کی شکلوں میں تجزیہ کیا گیا، اس دوران ان میں موجود جراثیم کا مائیکرو اسکوپ کی مدد سے انکشاف کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ان دونوں مشروم کے موروثیت’ڈی این اے‘ کا تعین کافی مشکل کام تھا۔ ان کے ڈی این اے کے تعین کے بعد ہی اسٹڈی پر مزید توجہ مرکوز کی جاسکتی تھی۔
الھندی نے کہا کہ لیبارٹری اپیلی کیشن کے دوران کھجور کی سونڈی کے متعدد کیڑے جمع کیے گئے۔ ان کے جوڑے بنائے گئے اور انہیں لیبارٹری کے ماحول میں رکھا گیا۔ اس دوران انہوں نے انڈے دیے، پھران کا لاروا بنا اورآخر میں حشرالارض کی شکل میں تبدیل ہوئے۔
ان پر مشروم سے تیار کردہ مرکبات کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ اس دوران یہ ثابت ہوا کہ لاروا کھجوروں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ یہ کھجور کے پھلوں ہی کو نہیں بلکہ درختوں کو بھی کمزور کرکے انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کردیتا ہے۔ اس دوران ان حشرالارض کے نر اور مادہ کو الگ الگ کرکے ان کی افزائش نسل کا بھی تجزیہ کیا گیا۔
تحقیق کے دوران ثابت ہوا کہ دونوں مشروم میں انفکیشن کی شرح 90 فی صد ہے۔ مشروم شکل تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور حشرالارض اس کی مزاحمت نہیں کرپاتے۔
سائنسی میدان میں اہم پیش رفت
غزہ میں بالخصوص کھجور کے پودوں اور پھلوں بالعموم زرعی اجناس کے لیے نئے دریافت ہونے والے طریقہ علاج کو سائنسی تحقیقات کے میدان میں اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں سائنسی تحقیقاتی شعبے کے وائس چیئرمین عبدالرؤف المناعمہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ تحقیق نے اسلامی یونیورسٹی کی تحقیقی صلاحیت اور فلسطینیوں کی سائنسی میدان میں مہارت کا لوہا منوایا ہے۔ اسلامی یونیورسٹی کے زیراہتمام کی گئی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جامعہ معاشرے کے لیے مفید اور اہل افراد کی تیاری کے ساتھ ساتھ خود بھی سائنسی تحقیقات میں قابل ذکر کارنامے انجام دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی یونیورسٹی اطلاقی تحقیقات کے ذریعے معاشرے اور فلسطینی قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہے اور اپنے ماہرین کی مدد سے معاشرے کی فلاحی بہبود کے لیے سرگرم ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ’کھجور کی سونڈی‘ کا کامیاب اور حیرت انگیز علاج ہے۔ بلا شبہ یہ طریقہ علاج کسانوں بالخصوص کھجور کے کاشت کاروں کے لیے ایک تحفہ ہے۔ اس کے تحقیق کے ہمہ جہت فواید اور ثمرات سامنے آئیں گے۔ جہاں ایک طرف غزہ میں کھجور کی فصل کو نقصادہ کیڑوں سے بچاؤ میں مدد ملے گی وہیں کسانوں کو اقتصادی فواید حاصل ہوں گے اور اس کے نتیجے میں قومی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔