فلسطینی اتھارٹی کی ماتحت عدالت نے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر طولکرم سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی کو مزید پندرہ روز کے لیے پولیس کی تحویل میں دینے کا حکم دیا ہے۔ صحافی سامی الساعی پر فرقہ وارانہ نعرے لگانے فلسطینی اتھارٹی کے خلاف تشدد پر اکسانے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسیر صحافی الساعی کی اہلیہ امانی الجندب نے بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کے پراسیکیوٹر نے طولکرم کی ایک عدالت میں درخواست دی تھی جس میں عدالت سے الساعی کو پندرہ روزتک تفتیش کے لیے پولیس کی تحویل میں دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ عدالت نے پراسیکیوٹر کی درخواست پرفیصلہ دیتے ہوئے الساعی کو دو ہفتوںکے لیے فلسطینی اتھارٹی کی پولیس کے حوالے کردیا۔
قدس پریس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطینی پراسیکیوٹر نے اس کے شوہر پر فرقہ وارانہ نعروں پر اکسانے کا الزام عاید کیا ہے اور اسی الزام کے تحت فلسطینی جنرل انٹیلی جنس نے سامی الساعی کو حراست میں لیا ہے۔ اسیر صحافی کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ الساعی کی گرفتاری کے بعد پہلے اس کی حراست میں 24 گھنٹےکی توسیع کی گئی۔ اس کےبعد مزید 48 گھنٹے کی اور آخر میں 15 دن کی توسیع کی گئی ہے۔
سامی الساعی ’فجر الجدید‘ ٹیلی ویژن چینل کے نامہ نگار ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھی فلسطینی عدالت نے انہیں فرقہ وارانہ نعروں کو ترویج دینے کی پاداش میں 25 دن تک قید رکھنے کا حکم دیا تھا۔
ادھر فلسطین میں صحافتی برادری نے فلسطینی اتھارٹی کی عدالت کی طرف سے صحافی سامی الساعی کو حراست رکھنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کی سازش قرار دیا ہے۔
فلسطین میڈیا سوسائٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی عدالت کا فیصلہ دراصل فلسطینی اتھارٹی کے چہرے پر بدنما داغ ہے۔