مسلمانوں کے قبلہ اول کے امور کے ڈائریکٹراور ممتاز مذہبی رہ نمامسلمانوں کے قبلہ اول کے امور کے ڈائریکٹراور ممتاز مذہبی رہ نما عمر الکسوانی نے کہا ہے کہ گذشتہ برس اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے’یونیسکو‘ کی مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے بارے میں منظور کی گئی قرارداد کے بعد صہیونی ریاست نے قبلہ اول کے بارے میں پالیسی مزید سخت کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2016ء کے آخر اور 2017ء کے اوائل میں مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کے دھاووں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔نے کہا ہے کہ گذشتہ برس اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے’یونیسکو‘ کی مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے بارے میں منظور کی گئی قرارداد کے بعد صہیونی ریاست نے قبلہ اول کے بارے میں پالیسی مزید سخت کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2016ء کے آخر اور 2017ء کے اوائل میں مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کے دھاووں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفت و گو کرتے ہوئے الشیخ الکسوانی نے کہا کہ حالیہ چند ماہ کے دوران اسرائیلی حکومت نے سیاہ لباس پہننے والے یہودی فرقے’حریدیم‘ کے عناصرکوبھی مسجد اقصیٰ میں دھاوے بولنے اور تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسوموات کی ادائی کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں الشیخ الکسوانی نے کہا کہ قبلہ اول کے حوالے سے اسرائیلی حکومت، اس کے انٹیلی جنس ادارے اور پولیس نے پالیسی تبدیل کردی ہے۔ جب گذشتہ برس اقوام متحدہ کےادارہ برائے سائنس وثقافت ’یونیسکو‘ نے بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور پورے حرم قدسی کو مسلمانوں کی ملکیت قرار دیا تو صہیونی ریاست نے یہودی آباد کاروں کو قبلہ اول پر دھاووں کی کھلی چھٹی دے دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یونیسکو کے فیصلے بعد صہیونی ریاست نے یہودیوں کو زیادہ بے لگام چھوڑ دیا اور وہ کھلے عام قبلہ اول میں پولیس اور فوج کی فول پروف سیکیورٹی میں داخل ہوتے اور مقدس مقام کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں الشیخ الکسوانی نے کہا کہ ماضی میں کئی یہودی گروپ اور مذہبی تنظیمیں ایسی تھیں جو قبلہ اول پر دھاوا بولنے میں شامل نہیں ہوتے تھے۔ ان میں سیاسی لباس پہننے والے حریدیم اور الشحوریم شامل تھے جو قبلہ اول پر دھاوے بولنے سے مجتنب رہے مگر گذشتہ برس یونیسکو کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کی ملکیت قرار دینے کے بعد ان گروپوں نے بھی مسجد اقصیٰ کے مراکشی دروازے اور باب السلسلہ سے اندر داخل ہو کر حرم قدسی کی بے حرمتی کرنے لگے ہیں۔
کشیدگی کا ذمہ دار اسرائیل
الشیخ الکسوانی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی پولیس کی جانب سے یہودی شرپسندوں کی سیکیورٹی کے دوران یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ قبلہ اول پردھاوے بولنےوالے سیاح نہیں بلکہ یہودی آباد کار ہیں جو تلمودی تعلیمات کے مطابق مقدس مقام کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ صہیونی حکومت کی طرف سے یہودی آباد کاروں کو بے لگام چھوڑںے کے سنگین نتائج سامنےآئیں گے اور ان کی تمام ترذمہ داری صہیونی ریاست پرعاید ہوگی۔
الشیخ الکسوانی نے کہا کہ اسرائیلی فوج اور پولیس کی جانب سے یہودی آباد کاروں کی فول پروف سیکیورٹی میں مدد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل ریاستی پالیسی کے تحت مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
مسجد اقصیٰ کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ امکان ہے کہ اسرائیلی حکومت قبلہ اول کے حوالے سے یونیسکو کے فیصلے کے مقابلے میں ایک نئی قرارداد لانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اسرائیل نے چونکہ عملی طور پر اپنے تمام ریاستی اداروں کو قبلہ اول پر یہودی آباد کاروں کے دھاووں میں معاونت کار اور سہولت کار بنا دیا ہے۔ اس لیے صہیونی ریاست کی طرف سے کسی قسم کے مزید سنگین فیصلے کو خراج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں 35 یہودی آباد کاروں نے قبلہ اول پر دھاوے بولے جن میں 20 یہودیوں نے سیاہ لباس پہن رکھے تھے۔ ان یہودیوں کا تعلق حریدیم یہودی طبقے سے ہے۔