چهارشنبه 30/آوریل/2025

الشیخ راید صلاح کا مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی مکالمہ

پیر 30-جنوری-2017

فلسطین کے سنہ 1948ء کے علاقوں میں قائم اسلامی تحریک کے امیر اور بزرگ فلسطینی رہ نما الشیخ راید صلاح نے کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ مسلمان امت کی ملکیت ہیں اور ان پرکسی قسم کے سودے بازی کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی ان پرکسی قسم کے مذاکرات کی کوئی گنجائش ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق  الشیخ راید صلاح نے ان خیالات کا اظہار مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے سنہ 1948ء کی جنگ میں صہیونی ریاست کے زیر تسلط آنے والے علاقوں میں رہنے ولے فلسطینیوں پر ایک منظم سازش کے تحت عرصہ حیات تنگ کیا جا رہاہے۔ اسرائیلی مختلف حربوں اور طاقت کے استعمال سے اندورن فلسطین کے عرب باشندوں کو وہاں سے نکال باہر کرنے میں مصروف ہے۔

ایک سوال کے جواب میں الشیخ راید صلاح نے کہا کہ انہوں نے پوری زندگی مسجد اقصیٰ کا دفاع کیا ہے۔ مسجد اقصیٰ صرف مسلمانوں کی ملکیت ہے جس پر بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست کی نسل پرستانہ پالیسیاں اور مذہبی بنیادوں پر فلسطینیوں کے خلاف مظالم قوم کو قبلہ اول کے دفاع سے پیچھے نہیں ہٹا سکتے۔

اپنی اسیری کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مجھے اسرائیلی فوج نے گرفتار کرنے کے بعد 9 ماہ تک جیلوں میں قید رکھا۔ میں اسرائیل کی بدنام زمانہ رامون جیل میں رہا جہاں بیشتر وقت قید تنہائی میں گذرا۔

الشیخ راید صلاح کا کہنا تھا کہ دشمن نے میرے عزم کو شکست دینے اور میرے اعصاب پر اثرانداز ہونے کے لیے مجھے تنگ و تاریک قید خانوں میں ڈالا گیا جہاں میرا دنیا کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا۔ مجھے دوسرے قیدیوں سے میل ملاقات کی بھی اجازت نہیں تھی۔ صرف رات کے وقت کھڑکی سے کسی دوسرے قیدی کے ساتھ بات کرنے کی اجازت ہوتی۔

بزرگ فلسطینی رہ نما نے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ صہیونی ریاست کے مظالم کو پورے عزم کے ساتھ برداشت کررہے ہیں۔

ذیل میں مرکزاطلاعات فلسطین کے ساتھ ان کی ہونے والی گفت وگو کے اہم نکات پیش خدمت ہے۔

قید تنہائی کے مصائب
اپنی اسیری کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مجھے اسرائیلی فوج نے گرفتار کرنے کے بعد 9 ماہ تک جیلوں میں قید رکھا۔ میں اسرائیل کی بدنام زمانہ رامون جیل میں رہا جہاں بیشتر وقت قید تنہائی میں گذرا۔

الشیخ راید صلاح کا کہنا تھا کہ دشمن نے میرے عزم کو شکست دینے اور میرے اعصاب پر اثرانداز ہونے کے لیے مجھے تنگ و تاریک قید خانوں میں ڈالا گیا جہاں میرا دنیا کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا۔ مجھے دوسرے قیدیوں سے میل ملاقات کی بھی اجازت نہیں تھی۔ صرف رات کے وقت کھڑکی سے کسی دوسرے قیدی کے ساتھ بات کرنے کی اجازت ہوتی۔

بزرگ فلسطینی رہ نما نے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ صہیونی ریاست کے مظالم کو پورے عزم کے ساتھ برداشت کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صہیونی جیلر انہیں قید تنہائی میں ڈال نہ کرصرف انہیں پریشان کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کے اہل خانہ کو کے صبر استقلال کو بھی آزمانا چاہتے تھے۔ صہیونی سیکیورٹی حکام نے ان کے عزیزو اقارب سے ان کی جیل میں ملاقات پر پابندی عاید کررکھی تھی اور کچھ عرصہ ان سے قرآن پاک اور دیگر کتب بھی چھین لی گئی تھیں۔

وقت سے استفادہ
الشیخ راید صلاح نے بتایا کہ ان کے لیے ایک پریشانی اور مشکل چیلنج چوبیس گھنٹے صہیونی فوجیوں کی جانب سے مسلح حصار بھی تھا۔

جب ان سے ان کے اوقات کی تنظیم اور مصروفیات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں بہ فضل تعالیٰ اپنے پروگرام میں کامیاب رہا۔ قید تنہائی کے باوجود میں خود کو مصروف رکھتا۔ میرا زیادہ تر وقت عبادت، نماز، روزے، قرآن پاک کی تلاوت، ذکر و اذکار، لکھنے لکھانےاور شعر وشاعری میں گذرتا۔ میری ان تمام مصروفیات میں وقت نہیں بچتا تھا اور میں بہ مشکل تمام  اپنے روز مرہ کے پروگرام کو مکمل کرپاتا تھا۔

مجھے وقت کی تنگی کا بھی احساس ہوتا۔ کسی قیدی کی زندگی کے لیے یہ سب سے اہم ہوتا کہ وہ اپنے وقت کو کس طرح مفید اور ثمر آور بنا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے دوران اسیری قید تنہائی کے شکار اسیران اور ان کی مشکلات کو سمجھنے کا موقع ملا۔ میں فردا فردا قیدیوں سے ملتا اور ان کے کئی سال قید کوصبرو استقات کے ساتھ برداشت کرنے اور بلند حوصلگی کو کو سمجھتا۔

تفتیش اور الزامات
جیل میں اسیری کے دوران صہیونی پولیس اور تفتیش کاروں کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسیری کے پہلے پانچ ماہ قدرے پرسکون گذرے، مگر جیسے جیسے میری اسیری کی مدت کم ہوتی گئی صہیونی حکام کی جانب سے تفتیش کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ سب سے پہلے ’’لاف 433‘‘ نامی ایک پولیس یونٹ کی جانب سے تفتیش کا آغاز ہوا۔ انہوں نے دو الزامات کے تحت تفتیش شروع کی۔ پہلا الزام ایک کالعدم تنظیم کے ساتھ تعلق کا تھا اور دوسرا اسرائیل کے خلاف اشتعال پھیلانے کا عاید کیا گیا۔ اس ضمن میں صہیونی فوج اور پولیس نے میری تقاریر کی ریکارڈنگ اور مضامین کی تفصیلات پیش کیں۔

صہیونی تفتیش کار میری تقاریر اور مضامین کو اسرائیل کے خلاف اشتعال قرار دیتے مگر میں اس بات پر قائم رہا کہ صہیونی حکام کے تمام الزامات قطعا باطل ہیں۔ صہیونی حکام ان کے خلاف مذہبی اور نسل پرستانہ سیاسی انتقام کی سازش کررہے ہیں۔ میں نے صہیونی تفتیش کاروں سےکہا کہ وہ میرا نہیں بلکہ قرآن وسنت اور اسلامی وعرب اصولوں کا ٹرائل کررہے ہیں۔ صہیونیوں کے تمام الزامات اور مقدمات کی حقیقت قطعا باطل ہے۔

دوسرے مرحلے میں اسرائیلی انٹیلی جنس حکام نے تفتیش شروع کی۔ انٹیلی جنس حکام کی تفتیش کا سلسلہ کافی طویل رہا۔

مجھے رامون جیل سے ’سالم ملٹری مرکز‘ منتقل کیا گیا جہاں تفتیش کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ مجھ سےکئی طرح کے سوالات باربار پوچھے جاتے۔

بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے دوسرے امور پرسوالات کیے جاتے۔ وہ مجھ سے  اس طرح بات کرتے جیسے مذاکرات کررہے ہوں۔ میں نے ان پرواضح کردیا کہ مسجد اقصیٰ پر مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ مسجد اقصیٰ صرف اور صرف مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ قیامت تک اس پر بات نہیں کی جاسکتی۔

دھمکیاں اور سمجھوتے سے انکار
مرکزاطلاعات فلسطین کی جانب سے الشیخ راید صلاح سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی رہائی کے بعد انہیں کسی قسم کی دھمکیاں مل رہی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ صہیونیوں کی دھمکیوں سے کبھی خوف زدہ نہیں ہوئے۔ یہ دھمکیاں کل بھی مل رہی تھیں اور آج بھی مل رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ صہیونی حکام نے خبردار کیا تھا کہ میں رہائی کے بعد کسی قسم کی سرگرمی میں حصہ نہیں لوں گا۔ ایک تفتیش کار نے جیل میں مجھ سے کہا کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ رہائی کے بعد آپ کس قسم کی سرگرمیوں میں مصروف رہیں گے۔ آپ کو کسی ممنوعہ تنظیم میں سرگرم نہیں ہونا ہوگا ورنہ آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے صہیونی تفتیش کاروں سے کہا کہ ایک انسان کی حیثیت سے میں اپنے عوام کی خدمت کروں گا۔ اس پر تفتیش کار نے کہا کہ آپ کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ آپ کنیسٹ [اسرائیلی پارلیمنٹ] کے انتخابات میں حصہ لیں۔ میں نے صہیونیوں کو بتایا کہ میں جب تک زندہ ہوں صہیونی کنیسٹ میں نہیں جائوں گا۔

خیال رہے کہ الشیخ راید صلاح مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا شکار فلسطین کے بزرگ رہ نماؤں میں ہوتا ہے۔ مسجد اقصیٰ کے دفاع میں سرگرم رہنے کی پاداش میں وہ صہیونی ریاست کے مسلسل زیرعتاب رہتے ہیں مگر انہوں نے دشمن کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے خود کو قبلہ اول کے دفاع کے لیے وقف کررکھا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی