اسرائیل کے عبرانی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی ممکنہ طور پر تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کے تناظرمیں صہیونی حکومت نے صلاح مشورے شروع کردیے ہیں۔ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا حکم صادر کرتے ہیں تواس کے نتیجے میں اسرائیل کو کس طرح کے سفارتی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عبرانی اخبار’ہارٹز‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے حال ہی میں وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں امریکی سفارت خانے کی ممکنہ طور پر بیت المقدس منتقلی اور اس کے بعد کے حالات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین، داخلی سلامتی کے وزیر گیلاد اردان، عسکری قیادت، پولیس کے سینیر افسران، خفیہ ادارے’شاباک‘ کے سربراہ اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں اس امرپرغور کیا گیا کہ اگر امریکا نے اسرائیل میں قائم اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تو اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے اور اسرائیل سفارت خانے کی منتقلی کے مابعد کے حالات سے کیسے نبرد آزما ہوگا۔
اخبار نے اسرائیلی حکومت کے سینیر حکام کے بیانات نقل کیے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران وزیراعظم نیتن یاھو نے کہا کہ اسرائیل نہیں جانتا کہ آیا امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ واقعی امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کا اعلان کریں گے۔ تاہم انہوں نے پولیس اور فوج کو ہدایت کی کہ وہ کسی بھی ممکنہ اقدام کے لیے خود کو تیار رکھیں۔
عبرانی اخبار کی ویب سائیٹ پر پوسٹ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں امریکی سفارت خانے کی ممکنہ طور پر بیت المقدس منتقلی کے تناظر میں فلسطینی اتھارٹی کی ابلاغی مہم بھی زیربحث لائی گئی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسرائیل کے خلاف اشتعال پھیلانے کی کوشش کررہی ہے اور امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے اعلان کو مبالغہ آرائی کی حد تک اچھالا جا رہا ہے۔
اسرائیلی خفیہ ادارے’شاباک‘ کے سربراہ، ملٹری انٹیلی جنس اور پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسی کوئی ٹھوس معلومات نہیں کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کیا تو اس کے رد عمل میں فلسطین میں مزاحمتی کارروائیاں یا مظاہرے ہوسکتے ہیں یانہیں تاہم اخباری رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کیا گیا تو اس کے رد عمل میں فلسطین میں سخت غم وغصے کی لہر دوڑ سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت کو اندازہ ہے کہ اگر ٹرمپ نے سفارت خانے کی منتقلی کے اعلان پرعمل درآمد کیا تو اس کے نتیجے میں غرب اردن اور بیت المقدس میں بڑے پیمانے پر کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔
خیال رہے کہ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کےدوران یہ اعلان کیا تھا کہ وہ صدر منتخب ہوکر تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کریں گے۔ ٹرمپ کے اس اعلان اور ان کے صدر بننے کے بعد مسئلہ فلسطین کے ایک نئی کشیدگی کی لپیٹ میں آنے اور آزاد فلسطینی ریاست کے لیے جاری امن کوششوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔