مسجد اقصیٰ کے امام وخطیب اور ممتاز فلسطینی عالم دین الشیخ محمد حسین نے خبردار کیا ہے کہ صہیونی ریاست میں قائم امریکی سفارت خانہ تل ابیب [تل الربیع] سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنا فلسطینی قوم کے خلاف اعلان جنگ تصور ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا نے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرتے ہوئے مسلمانوں کے مقدس شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق قبلہ اول کے امام وخطیب الشیخ محمد حسین نے کہا کہ فلسطینیوں کی آزادی سلب اور حقوق غصب کرنے والے فلسطینی قوم کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔
مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے الشیخ محمد حسین نے کہا کہ فلسطینی قوم مسجد اقصیٰ کےحوالے سے کسی قسم کی افراط وتفریط کو قبول نہیں کرے گی۔ مسجد اقصیٰ خالص مسلمانوں کا مذہبی مقام ہے اور اس کا درجہ حرمین شریفین کے بعد دنیا میں مسلمانوں کے تیسرے مقدس مقام کا ہے۔
فلسطینی عالم دین کا کہنا تھا کہ قبلہ اول اور القدس صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کےمراکز ہیں۔ قبلہ اول اور بیت المقدس ہمارے دین اور ایمان کا جزو ہے۔ مسلمان تا قیامت ان مقامات سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست بیت المقدس کا نقشہ تبدیل کرنے اور مقدس شہر کا تاریخی اسلامی اسٹیٹس تبدیل کرنے کے لیے فلسطینیوں کی نسل کشی کا مرتکب ہو رہی ہے۔ بیت المقدس میں جگہوں کے نام بدلے جا رہے ہیں اور فلسطینیوں کو بندوق کےزور پر شہر چھوڑنے پرمجبور کیا جا رہا ہے۔
فلسطین میں یہودی آباد کاری کی مذمت میں سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری پر بات کرتے ہوئے الشیخ محمد حسین نے سوال اٹھایا کہ عالمی برادری فلسطینیوں پر مظالم کے حوالے سے صرف قرادادوں تک کیوں محدود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل نے فلسطین میں یہودی کالونیوں کو غیرقانونی قرار دیا ہے مگر اس قرارداد پرعمل درآمد کب ہوگا۔
خیال رہے کہ کل جمعہ کو ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہریوں نے الشیخ محمد حسین کی قیادت میں مسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نماز ادا کی۔ نماز جمعہ کے دوران اسرائیلی فوج اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ قابض فورسز نے فلسطینیوں کو نماز جمعہ کے لیے مسجد اقصٰی پہنچنے سے روکنے کے لیے طاقت کے وحشیانہ حربے بھی استعمال کیے۔ مگر قابض فوج کی پابندیوں کو توڑ کر فلسطینی شہری قبلہ اول میں پہنچنے میں کامیاب رہے۔