صہیونی ریاست کی جانب سے نہ صرف عام فلسطینیوں کا روز مرہ زندگی کے معمولات متاثر ہو رہے ہیں بلکہ فلسطینی تاریخ، ثقافت اور تہذیب وروایات پربھی گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین کے مختلف شہروں میں صدیوں پرانے دور کی ظروف سازی کی صنعت اہل فلسطین کی پہچان قرار دی جاتی ہے مگر صہیونی پابندیوں کےنتیجے میں ظروف سازی کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ صہیونی ریاست ایک طے شدہ حکمت عملی اور پالیسی کے تحت فلسطینی قوم کی تاریخی وتہذیبی روایات کو مٹانےکے لیے کوشاں ہے اور نسل پرستانہ پالیسیوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کی دست کاریوں کو تباہ کررہی ہے۔
دم توڑنے والی تاریخی روایات اور ثقافتی اقدار میں الخلیل شہر کی ظروف سازی کی صنعت بھی شامل ہے جو برسوں سے صہیونی ریاست کی قدغنوں کے نتیجے میں تباہی سے دوچار ہے۔ تاریخی روایات سے پتا چلتا ہے کہ الخلیل شہر میں ظروف سازی کی صنعت چوتھی صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے۔ فلسطینی مورخ مصطفیٰ مراد الدباغ اپنی کتاب’ فلسطین ہمارا ملک‘ میں رقم طراز ہیں کہ برتن سازی فلسطین کا سب سے پرانا ہنر ہے اور فلسطینی قوم ماضی قدیم ہی سے کوزی گری اور برتن سازی میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔
الخلیل شہر میں رہنے والے الفاخوری فیملی کے کچھ افراد آج بھی اس فن کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مٹی کے برتن تیار کرنا ان کا آبائی پیشہ ہے مگر صہیونی ریاست کی طرف سے عاید کردہ پابندیوں کے نتیجے میں انہیں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔
ظروف سازی کے مراحل
الخلیل کے رہائشی حماد الفاخوری کو ظروف سازی کا فن اپنے باپ دادا سے ملا۔ مشکلات کے باوجود وہ آج بھی اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مٹی کی برتن سازی ایک پیچیدہ مگر دلچسپ فن ہے۔ برتن سازی کئی مراحل کا کام ہے۔ پہلے مرحلے میں برتنوں کے لیے مٹی تیار کی جاتی ہے۔ مقامی سطح پر برتن سازی کے لیے استعمال ہونے والی مٹی کو ’غلالہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ زرد رنگ کی مٹی ہوتی ہے جس میں روایتی سرخ مٹی ملائی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں کچھ ریت ملائی جاتی ہے۔ مٹی کو ہرقسم کے کنکر پتھر سے صاف کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے پانی ڈال کر گوندا جاتا ہے اور کوئی ایک ماہ تک ایک خوض نما جگہ میں نمی میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے سورج کی روشنی میں خشک کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ مٹی برتن تیار کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔
حماد نے بتایا کہ جب مٹی کئی مراحل سے گذر کربرتن کے لیے تیار ہوجائے اسے متحرک دائرے کی شکل مختلف سانچوں میں ڈالا جاتا ہے۔ کچا برتن تیار ہونے کے بعد اسے دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ اس دوران برتن پر پانی کا ہلکا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ پھر برتوں کو ایک ہزار درجے سینٹی گریڈ گرمی میں پکایا جاتا ہے۔
مشکلات اور چیلنجز
فلسطین میں ظروف سازی کے دم توڑتے فن کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ فلسطینی برتن ساز[کمہار] حماد الفاخوری کا کہنا ہے کہ اس فن سے وابستہ افراد کی تعداد اب انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ پہلے تو لوگ زیادہ دلچسپی سے مٹی کے برتن خرید نہیں کرتے۔ اس پر مستزاد صہیونی پابندیاں ہیں۔
صہیونی حکام کی طرف سے یہ کہہ پر پابندی عاید کی جاتی ہے کہ مٹی کے برتن تیار کرنے کے عمل سے ماحولیاتی آلودگی پھیلتی ہے۔ صہیونی حکام بھٹیوں میں مضبوط کرنے کے لیے ڈالے گئے برتن بھی نکلوا دیتے ہیں اور بھٹیاں بند کرا دی جاتی ہیں۔
حماد الفاخوری کا کہنا ہے کہ ان کے تیار کردہ برتنوں کی مارکیٹ میں طلب بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ زیادہ تر مٹی کے برتنوں کے بجائے اسٹیل اور دیگر دھاتوں کے تیار کردہ برتوں کو خرید کرتے ہیں۔