مسجد اقصیٰ کے امام وخطیب الشیخ عکرمہ صبری نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی امریکی کوششوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے کھلا اعلان جنگ قرار دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرت ہوئے الشیخ صبری نے کہا کہ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی سفارت خانہ صہیونی ریاست کے دارالحکومت تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کی اسکیم تیار کررہے ہیں۔ اگر امریکا اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرتا ہے تو یہ فلسطینیوں، عرب ممالک اور پورے عالم اسلام کے خلاف اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کرنے کا اعلان قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔
الشیخ عکرمہ صبری نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان عالمی معاہدوں، بین الاقوامی قوانین اور فلسطینیوں کے مسلمہ حقوق کی سنگین پامالی ہے۔ پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ بیت المقدس پر اسرائیل کا کوئی حق نہیں۔ اس شہر پراسرائیل کا تسلط باطل،ناجائز اور غیرقانونی ہے۔
انہوں نے اسفتسار کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیوں کیا تھا؟اس کا جواب واضح ہے۔ ٹرمپ امریکا اور پوری دنیا کے یہودیوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا فلسطینیوں کے بنیادی اور موروثی حقوق کی سودے بازی کرنے کی سازش کررہا ہے۔ امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنا بیت المقدس کو یہودیوں کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے مترادف اور اس مقدس شہر پر فلسطینیوں کا حق ساقط کرنے کی سازش ہے۔
خیال رہے کہ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی اسرائیل میں قائم امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا حکم دیں گے۔
عبرانی اخبارات کے مطابق امریکا اور اسرائیلی حکومت نے امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ امریکا اور اسرائیلی حکام نے بیت المقدس میں امریکا کے سفارت خانے کے لیے جگہ کی تلاشی شروع کردی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ بیت المقدس میں اسرائیلی قونصل خانے کو سفارت خانے کے طور پراستعمال کیا جائے گا۔