اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی حکومت نے اسرائیل میں قائم کردہ سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے لیے جگہ کی تلاش شروع کردی ہے۔ امکان ہے کہ بیت المقدس میں قائم امریکی قونصلیٹ ہی کو سفارت خانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’ہارٹز‘ نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پرعمل درآمد کے لیے اسرائیل میں قائم امریکی سفارت خانہ تل ابیب کے بجائے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے انتظامات شروع کردیے ہیں۔
اخباری رپورٹ میں بیت المقدس میں اسرائیلی بلدیہ کے چیئرمین نیر برکات اور ان کے نائب میئر ترجمان کے بیانات نقل کیے ہیں۔ ان دونوں عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکا نے بیت المقدس میں سفارت خانے کے قیام کے لیے جگہ کی تلاش شروع کردی ہے۔ تاہم کوئی مناسب جگہ نہیں مل سکی ہے۔ نیر برکات کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ امریکا بیت المقدس میں سفارت خانے کے قیام کے لیے کوئی نئی عمارت تعمیر کرے۔ وہ پہلے سے تعمیر شدہ کسی عمارت کو بھی سفارت خانے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ اغلب یہ ہے کہ بیت المقدس میں قائم امریکی قونصل خانے ہی کو سفارت خانے کے طور پراستعمال کیا جائے گا۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیت المقدس میں امریکی قونصل خانہ ’’ارنونا‘‘ کالونی میں قائم ہے۔ ہنگامی طور پر اسی قونصل خانہ کی عمارت ہی کو قونصل خانے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ امریکا کے نو منتخب اسرائیل نواز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات جیتنے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ مستحکم کرائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دائمی دارالحکومت بنانے کے لیے اقدامات کریں گے اور تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا جائے گا۔