اسرائیلی حکومت اور اپوزیشن نے فلسطین میں غیرقانونی طور پر بنائی گئی یہودی کالونیوں کو قانونی حیثیت دینے کا معاملہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنھبالنے اور بارک اوباما کی حکومت کے خاتمے تک موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسرائیل کے عبرانی نیوز ویب پورٹل ’’این آر جی‘‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور جیوش ہوم کے سربراہ نفتالی بینت نے غیرقانونی یہودی کالونیوں کو قانونی حیثیت دینے سے متعلق بل پر حتمی فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنھبالنے تک موخر کرنے سے اتفاق کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کو خدشہ ہے کہ موجودہ امریکی حکومت یہودی بستیوں کے تنازع پراسرائیل کے خلاف عالمی اداروں میں کوئی نیا محاذ کھول سکتا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ بدھ کو اسرائیلی پارلیمنٹ نے یہودی کالونیوں کو قانونی حیثیت دینے کے بل کی ابتدائی رائے شماری میں منظوری دے دی تھی۔
پہلی رائے شماری میں ایوان میں موجود 58 ارکان نے ان کالونیوں کی حمایت جب کہ 51 نے مخالفت کی تھی۔ بل کو باضابطہ طور پرقانونی درجہ حاصل کرنے کے لیے دوسری اور تیسری رائے شماری سے گذرانے کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔
اس مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہروں میں غیرقانونی طور پر بنائی گئی یہودی کالونیوں کو قانونی درجہ حاصل ہوجائے گا۔ اگر یہ یہودی کالونیاں فلسطینیوں کی نجی اراضی پر تعمیر کی گئی ہیں تو فلسطینیوں کو اراضی کے بدلے میں معاوضہ ادا کیا جائے گا۔