اسرائیلی عقوبت خانوں میں ڈالے گئے فلسطینیوں پر تعذیب وتشدد کے بدترین پہاڑ توڑے جانے کا سلسلہ اپنی جگہ پر جاری ہے۔ دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو اذیتیں دینے سے متعلق سیکڑوں شکایات پر کارروائی کے بجائے صہیونی تحقیقاتی اداروں نے انہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ فلسطینی قیدیوں پر تشدد کے مکروہ حربوں کی تحقیقات کے لیے دی گئی درخواستوں اور شکایات پر کارروائی نہ کرنا صہیونی تفتیش کاروں کو مکروہ حربے اور ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے کا نیا جواز فراہم کررہی ہے۔ قیدیوں پر تشدد کی شکایات کو نظرانداز کرنے سے اسیران پر تشدد کا نیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’ہارٹز‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سات سال قبل خفیہ ادارے’شاباک‘ کی تحویل میں موجود فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی چھان بین کے لیے’مانیٹرنگ سیل‘ قائم کیا گیا تھا۔ مانٹیرنگ سیل کو قیدیوں پر وحشیانہ تشدد کی سیکڑوں شکایات پہنچائی گئی تھیں مگر مانیٹرنگ یونیٹ نے کسی ایک شکایت پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج مجرمانہ ہتھکنڈوں کے استعمال کے حوالے سے پہلے بھی بدنام رہی ہے۔ خفیہ ادارے کی مانیٹرنگ یونٹ کو دی گئی شکایات کو نظرانداز کرنے سے صہیونی ریاست انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی جانب سے مزید دباؤ میں آسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مانیٹرنگ یونٹ کے تفتیش کے دوران مانیٹرنگ سیل کے ایک اہلکار کو بھی شامل کرنے کی سفارش کی گئی تھی مگر اس پربھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ قیدیوں پر تشدد کے ہولناک حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور انہیں کئی کئی روز تک سونے سے روکا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2001ء سے 2008ء کے دوران اسرائیلی سپریم کورٹ میں فلسطینیوں پر وحشیانہ تشدد کی 600 شکایات کی گئی تھیں۔ سنہ 2009ء سے 2012ء تک مانیٹرنگ سیل نے سیکڑوں شکایات کی چھان بین کے بعد انہیں داخل دفتر کردیا تھا اوران شکایات پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
سنہ 2013ء میں 67، سنہ 2014ء میں 148 اور سنہ 2015ء اور 2016ء میں سیکڑوں شکایات کی گئیں مگر کسی ایک شکایت پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔