سنہ 2016ء صہیونی ریاست کے لئے کئی حوالوں سے پریشان کن انتہائی نقصان دہ گذرا۔ دیگر حوالوں میں عالمی سطح پر اسرائیل کے معاشی، تعلیمی، سائنسی، طبی ،زرعی اور دیگر شعبوں میں بائیکاٹ تحریک بھی نمایاں ہے۔ بائیکاٹ تحریک نے صہیونی ریاست کی پیٹھ پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی جس نے صہیونی ریاست کی معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل کے معاشی بائیکاٹ کی تحریک’بی ڈی ایس‘ سنہ 2016ء کے دوران کامیاب ترین تحریک ثابت ہوئی ہے۔ اگرچہ صہیونی ریاست اور حکومت نے اس تحریک کو غیر موثر بنانے کے لیے یہودی لابی کے ذریعے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر صہیونی ریاست کے تمام حربے ناکام ونامراد رہے ہیں۔ بائیکاٹ تحریک دن رات تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2016ء کے دوران عالمی سطح پر اسرائیل کے معاشی بائیکاٹ اور دیگر شعبوں میں بائیکاٹ نے صہیونی ریاست کو بھاری مالی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ اسرائیل کو اپنی مصنوعات عالمی منڈی میں پہنچانے میں کئی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیلی حکومت، عبرانی ذرائع ابلاغ اور یہودی لابی مل کر بھی ’بی ڈی ایس‘ کو غیر موثر کرنے اور اس کے مقاصد کی راہ میں روڑے اٹکانے میں ناکام رہی ہے۔ یوں یہ تحریک مسئلہ فلسطین کو ایک نئے انداز میں دنیا کے سامنے اٹھانے کا ذریعہ بنی ہے۔
بائیکاٹ تحریک کے نتیجے میں کئی عالمی کمپنیوں نے اسرائیل میں سرمایہ کاری کے منصوبے روک کر اپنا سرمایہ واپس لیا۔ ان میں آئرلینڈ کی ’سی ایچ آر‘ نامی فرم بھی شامل ہے جس نے رواں سال کے اوائل میں اسرائیل میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا تھا مگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ کےبعد’سی ایچ آر‘ کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔
اسپین کی کئی بلدیاتی اور شہری کونسلیں بائیکاٹ تحریک میں شامل ہوئیں۔ ان میں گران کناریا، اشبیلیہ ، قرطبہ اور سانتا شہروں کی بلدیاتی حکومتیں بھی سر فہرست ہیں جنہوں نے اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ تحریک کا ساتھ دیا۔
بائیکاٹ موومنٹ کے کامیاب اثرات کے نتیجے میں امریکا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اس تحریک نے نتیجے میں G4s نامی معاہدوں میں اسرائیل ناکام رہا۔ کویت کی سول سیکیورٹی انشورینس اور کولمبییا کی ایک بڑی کمپنی نے بھی بالواسطہ طور پر اسرائیل کے ساتھ معاہدوں سے انکار کرکے بائیکاٹ تحریک کو کامیاب بنایا۔
برازیل اور اٹلی کے سیکڑوں ماہرین تعلیم، دانشوروں، اساتذہ اور سائنسدانوں نے اسرائیل کا تعلیمی اور سائنسی شعبے میں بائیکاٹ کیا۔
بائیکاٹ تحریک آسکر ایوارڈ کمیٹی پربھی اثر انداز ہوئی اور اسرائیل کو آسکر ایوارڈ سے باہر رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری جانب بائیکاٹ تحریک کو بھی صہیونی ریاست اور عالمی یہودی لابی کی شرانگیزی کا مسلسل سامنا رہا ہے۔ تحریک سے وابستہ کارکنان کا کہنا ہے کہ انہیں کئی ملکوں میں پرامن احتجاجی مظاہروں کے انعقاد میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا جس کا بنیادی محرک اسرائیل اور یہودی لابی تھے۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں تحریک کے ہزاروں کارکنان نے حق زندگی، آزادی اظہار، پرامن احتجاج اور عالمی معاہدوں کے تحت حاصل حقوق کو یقینی بنانے کے لیے مظاہروں اور احتجاجی تحریکوں میں حصہ لیا۔