اسرائیل کے ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور اپوزیشن نے فلسطینیوں کی نجی اراضی پر تعمیر کی گئی کالونیوں اور مکانات پر پیدا ہونے والے تنازع کو بات چیت اور مفاہمت کے ذریعے حل کرنے پر متفق ہو گئی ہے۔ اخباری رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی نجی اراضی پرتعمیر کیے گئے چار ہزار سے زاید مکانات کوقانونی شکل دینے کے لیے کوشاں ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے وسطی شہر رام اللہ میں فلسطینیوں کی نجی ملکیتی اراضی پر بنائی گئی’’عمونا‘‘ نامی یہودی کالونی کو خالی تو کرے گی مگر وہاں بسائے گئے یہودی آباد کاروں کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کے بجائے پڑوس میں فلسطینیوں کی متروکہ اراضی پر انہیں بسایا جائے گا۔ یہ متروکہ اراضی صہیونی حکومت نے فلسطینیوں سے چھین رکھی ہے جس کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے مالکان ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور ان کی املاک ریاست کی ملکیت ہیں۔
اخباری رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عمونا کالونی کو خالی کرنے کے بارے میں اتفاق رائے کے بعد حکومت نے معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے کا فیصلہ بھی موخر کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ عمونا کالونی کو خالی کرانے کے لیے ایک ماہ کی اضافی مہلت دے تاکہ کالونی کو خالی کرنے سے قبل یہودی آباد کاروں کے لیے متبادل مکانات تعمیر کرائے جاسکیں۔
عبرانی ٹی وی 7 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی انتظامیہ اور یہودی آباد کاروں نے فلسطینیوں کی نجی اراضی پر 4000 سے زاید مکانات تعمیر کر رکھے ہیں۔ حکومت ان تمام رہائشی یونٹس کو قانونی شکل دینے کے لیے کوشاں ہے۔ اسرائیلی حکومت کی کوشش ہے کہ ان مکانات کو خالی نہ کرایا جائے۔ اگر انہیں خالی کرایا بھی جاتا ہے تو وہاں سے یہودی آباد کاروں کو فلسطینیوں کی متروکہ اراضی پر منتقل کیا جائے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو غیرقانونی تعمیرات کو قانونی شکل دینے میں دوسرے لیڈروں میں پیش پیش ہیں۔