ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ‘پارلیمنٹرینز برائے القدس’ لیگ کی پہلی کانفرنس کی میزبانی کا اعزاز استنبول کو حاصل ہو رہا ہے۔
کانفرنس سے اپنے افتتاحی خطاب میں ایردوآن کا کہنا تھا کہ "میں القدس کے برادر شہر استنبول سے دنیا کے تمام مظلوموں، بہادر فلسطینی جوانوں، رام اللہ، نابلس اور غزہ سمیت تمام فلسطینی شہروں کے باسیوں، فلسطینی خواتین، دوشیزاوں اور مسئلہ فلسطین کا دفاع کرنے والے تمام فلسطینی مہاجرین کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔”
انہوں نے یہ بات دوٹوک الفاظ میں کہی کہ القدس تینوں ادیان کا مرکز ہے تاہم مسجد اقصی، پہاڑی کا گنبد اور مسجد اقصی کا زیرین علاقہ صرف اور صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔
انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ مسجد اقصی اور القدس کا تحفظ ہمارا دینی فریضہ ہے۔ ” آپ گزشتہ نصف صدی سے زائد مدت سے فلسطین میں ہونے والی خلاف ورزیاں سہہ رہے ہیں۔ آپ آج ہمارے درمیان ہیں اور اس سفر کا مقصد القدس اور اہالیاں فلسطین سے اظہار یکجہتی ہے۔ مجھے آپ کی میزبانی پر انتہائی مسرت ہو رہی ہے۔ الاقصی کا تحفظ اور اپنے پتھروں سے لڑنے والے بچوں اور القدس کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔”
انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کی اہمیت نمایاں ہے اور ‘پارلیمنٹرینز برائے القدس’ لیگ دنیا بھر میں پھیلے فلسطینیوں کے لئے طاقت کا مرکز ہے۔
طیب ایردوآن نے اپنے خطاب میں اقوام متحدہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس میں دو رائیں نہیں کہ مسئلہ فلسطین حقوق سلبی کا معاملہ ہے۔ اقوام متحدہ اس معاملے پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ دنیا میں قانون کی حکمرانی کے بجائے حکمرانوں کا قانون رائج ہے۔”
اسرائیل میں مساجد سے آذان پر پابندی کا ذکر کرتے ہوئے ایردوآن نے کہا کہ مذہبی آزادی پر پابندی لگانے والے اقدامات سے کسی کو فائدہ نہیں بلکہ اس سے تنگی کا ماحول مترشح ہوتا ہے۔ ہم نے ایسے اقدامات کے بعد پیدا ہونے والے صورتحال اور ایسے فیصلوں پر اپنی تشویش سے اسرائیلی حکام کو آگاہ کر دیا ہے۔”
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایردوآن نے کہا کہ ہم فلسطینیوں کی تاریخی زمین کی بازیابی کے لئے فوری اور ضروری اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ان سے روا رکھے جانے والے سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش نہیں رہ سکتے کیونکہ ایسے اقدامات سے مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور مسجد اقصی کا تقدس پامال ہوتا ہے۔”
منگل کے روز ترکی کے تاریخی شہر استبنول میں "پارلیمنڑینز برائے القدس’ لیگ کے زیر اہتمام پہلی کانفرنس منقد ہوئی۔ اس کانفرنس کے میزبان ترک صدر تھے جس میں عرب اور اسلامی ملکوں سے دسیوں پارلیمنٹرینز نے شرکت کی۔
کانفرنس میں چالیس ملکوں سے تقریبا 415 پارلیمنڑینز شریک ہوئے تاکہ وہ عرب اور اسلامی دنیا کے منتخب ایوانوں کی طرف سے مسئلہ فلسطین کے حق میں رائے ہموار کر سکیں۔