انسانی حقوق کی ایک عالمی تنظیم کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں اور معاشی ناکہ بندی کے شکار فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی کے 60 فی صد باشندے خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کی پٹی پر مسلط اسرائیلی ناکہ بندی کے خاتمے میں سرگرم تنظیم بین الاقوامی مہم برائےانسداد ناکہ بندی کی خاتون ترجمان نے غزہ بندرگاہ کے قریب ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی کے ساٹھ فی صد باشندے مضر صحت خوراک استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
عالمی ادارے کی ترجمان ’منیٰ سکیک‘ نے کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی معاشی پابندیوں کو مسلط ہوئے دس سال ہوچکے ہیں۔ پوری آبادی پر اجتماعی پابندیاں عاید کرنا عالمی قوانین کی رو سے سنگین جرم ہے۔ چوتھے جنیوا کنونشن میں طے پائے عالمی حقوق چارٹر کے آرٹیکل تین اور تیس میں وضاحت کی گئی ہے کہ کسی ملک کو کسی بھی طبقے پر اجتماعی پابندیاں عاید کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی کے عوام کو دہری مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک طرف جاں گھسل ناکہ بندی ہے اور دوسری طرف بار بار جنگیں مسلط کرکے غزہ کی پٹی کی معیشت کو تباہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کی مسلط کردہ جنگجوں کے نتیجے میں غزہ کی معیشت کو پانچ ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔
منیٰ اسکیک نے مصری حکومت کی جانب سے غزہ کی بین الاقوامی گذرگاہ رفح کو کھولنے کی کوششوں کو سراہا تاہم انہوں نے کہا کہ کئی ہفتوں کے بعد ایک یا دو روز کے لیے رفح گذرگاہ کھولنے سے غزہ کے عوام کی مشکلات کے حل میں مدد نہیں مل سکتی۔ مصر رفح گذرگاہ کو مستقل بنیادوں پر دو طرفہ آمد ورفت کے لیے کھول دے تاکہ غزہ کے عوام آزادانہ تجارتی اور معاشی سرگرمیاں بھی جاری رکھ سکیں۔