فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو یرغمال بنانے اور عدالتوں سے من مانے فیصلے حاصل کرانے کے حالیہ واقعات پر انسانی حقوق کے حلقوں کی طرف سے سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
فلسطین میں انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور عدلیہ کی آزادی وشفافیت کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے عدلیہ کو دباؤ میں لا کر مرضی کے فیصلے کرانے کے سنگین مضمرات مرتب ہوں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ’’انسانی حقوق مرکز‘‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اورا نتظامیہ عدلیہ کی آزادی پر براہ راست اثر انداز ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے عدلیہ پر دباؤ کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے نتیجے میں عدلیہ کی آزادی ختم ہو کر رہ جائے گی جس کے نتیجے میں شہری حقوق بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔
انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ تنظیم کو فلسطینی انتظامیہ کے بعض اقدامات پر گہری تشویش لاحق ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور انتظامیہ عدلیہ کو آلہ کار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔
خیال رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم کی طرف سے یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب فلسطینی انتظامیہ اور صدرعباس کی طرف سے عدلیہ کے امور میں مبینہ مداخلت، ججوں کی عزل ونصب اور فلسطینی اتھارٹی کی حمایت میں فیصلوں کے اجراء کے بعد ملک کے سیاسی حلقوں کی طرف سے بھی سخت تنقید کی گئی تھی۔
ایک ماہ قبل فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے اپنے ایک مقرب فتحاوی لیڈر توفیق طیراوی کی سفارش پر سپریم جوڈیشل اتھارٹی کے چیئرمین جسٹس سامی صرصور کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ بعد ازاں جسٹس صرصور نے انکشاف کیا تھا کہ توفیق طیراوی نے ان سے تحریری استعفیٰ رواں سال کے اوائل ہی میں لے لیا تھا تاہم اس پر تاریخ درج نہیں کرائی گئی تھی۔ طیراوی صرصور کے خلاف کارروائی کے لیے موقع کی آڑ میں تھے۔ موقع ملتے ہی انہوں نے استعفے پر اپنی مرضی کی تاریخ ڈالنے کے بعد اسے صدر عباس کے سامنے پیش کردیا تھا۔