فلسطین میں انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور عدلیہ کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ڈیڑھ سو تنظیموں نے فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے قائم کردہ ’دستوری عدالت‘ کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے 150 اداروں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے اختیارات کے حصول کے لیے قائم کردہ ’’دستوری عدالت‘‘ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے۔ فلسطین کے تمام جمہوریت پسند شہری اور نمائندہ ادارے دستوری عدالت کو باطل قرار دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر محمود عباس کو ارکان پارلیمان کو حاصل پارلیمانی تحفظ ختم کرنے کا اختیار دے کر دستوری عدالت نے عدلیہ کی آزادی ، پارلیمانی اور جمہوری اصولوں پر حملہ کیا ہے۔ دستوری عدالت کی طرف سے فلسطینی صدر کو پارلیمنٹ کے اختیار سونپنے کا کوئی حق نہیں۔ فلسطینی ادارے دستوری عدالت کے فیصلے اور صدر محمود عباس کو زیادہ با اختیار بنانے کی سازشوں کو قبول نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کی ماتحت دستوری عدالت نے ایک فیصلے میں صدر محمود عباس کو مزید اختیارات سونپنے کا اعلان کیا تھا۔ دستوری عدالت کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ صدر کو پارلیمنٹ کے منتخب ارکان کا تحفظ ختم کرنے اور ان کے خلاف فوج داری مقدمات قائم کرنے کا حکم دینے کا اختیار ہے۔
دستوری عدالت کے اس فیصلے کو فلسطین کی بیشتر سیاسی اور عوامی قوتوں نے مسترد کردیا تھا۔ اب فلسطین میں انسانی حقوق کے حلقوں نے بھی دستوری عدالت کے غیرآئینی اور غیرقانونی ہونے کی مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
فلسطین کے سیاسی مبصری نے انسانی حقوق کے ڈیڑھ سو گروپوں کے متفقہ فیصلے کو فلسطینی اتھارٹی کے لیے ایک دھچکا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے اجتماعی طور پر دستوری عدالت کو غیرآئینی قرار دینے سے فلسطینی اتھارٹی پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا۔