فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل کی کئی نسبتیں اس کی تاریخی، تہذیبی، اسلامی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ یہاں کے باسی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیاب خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ کاری گری اور اپنی کمال ماہرانہ ہنر مندی میں بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ یہ اہل فلسطینی کی غیرمعمولی اور ناقابل یقین کامیابی ہے کہ وہ خالص سونے کی تلاش میں اپنی مہارت میں یورپی ملکوں کے ہم پلہ قرار دیے جانے لگے ہیں۔ فلسطین میں خام مال سے خالص سونے کی تلاش کے لیے جو مشینری استعمال کی جا رہی ہے وہ صرف یورپ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں ہے۔ فلسطینیوں کی اسی کامیابی نے انہیں صہیونی ریاست سے معاشی خود مختاری کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔
الخلیل کے باسیوں نے صہیونی ریاست کی مسلط کردہ پابندیوں کواپنے آہنی عزم سے نہ صرف توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ کئی شعبوں میں حیرت انگیز کامیابی اور جدت کے ذریعے اپنی مہارت کا لواہا بھی منوایا ہے۔
دیگر پیشہ وارانہ شعبوں کے ساتھ ساتھ الخلیل کی ’گولڈ انڈسٹری‘ بھی تاریخی اعتبار سے مشہور و معروف ہے۔ الخلیل میں جس پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ مٹی سے سونا تلاش کیا جاتا اور خالص سونے کی چھان کی جاتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ الخلیل کی سونا چھاننے اور خالص سونے کی تلاش کی خبریں شہر اور ملک سے باہرنکل کر دوسرے ملکوں تک پہنچ رہی ہیں۔
فلسطینی سناروں کی اس مہارت نے نہ صرف اپنی کامیابی کا لواہا منوا بلکہ یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ملک وقوم کے لیے ایک آزاد معیشت میں بھی گراں قدر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ وہ صہیونی ریاست سمیت کسی بھی دوسری غاصب طاقت کے مرہون منت نہیں۔ وہ اپنی پیشہ وارانہ مہارت سے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے خام مواد سے خالص سونا تلاش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ویسے تو الخلیل شہر میں ایسے کئی کارخانے کام کررہے ہیں جہاں پر فلسطینی سنار اور سونے کی چھان پھٹک کے پیشہ ور ماہرین شبانہ روز کام کرتے ہیں مگر ان میں سب سے مشہور نام ’’القواسمی جیولری کمپنی‘‘ کا ہے۔
خالص سونے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال
القواسمی جیولری کمپنی کے سربراہ احمد القواسمی کا کہنا ہے کہ وہ عرصہ دراز سے اس شہر میں سونے کا کاروبارکررہےہیں۔ وہ نہ صرف خام مال سے سونا تلاش کرتے ہیں بلکہ مقامی اور علاقائی جیولری کے دلکش نمونے بھی تیار کرتے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتےہوئے احمد القواسمی نے کہا کہ قیمتی دھاتوں کو خالص کرنا اور خام مال سے صاف سونا تلاش کرنا ایک پیچیدہ کام ہے مگر ان کے ساتھ کام کرنے والے ماہرین عرصے سے اپنی کامیابی کا لوہا منوا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم خالص سونا تلاش کرنے کے لیے خام مال جدید مشینیوں میں ڈالتے ہیں جو مٹی اور سونا الگ الگ کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ القواسمی کا کہنا ہے کہ الخلیل شہر میں ان کی فیکٹری پورے ملک میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد کارخانہ ہے جہاں یورپی اور عالمی سطح کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے خالص سونا تلاش کیا جاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ خام مال سے خالص سونے کی تلاش کئی مراحل پرمبنی کام ہے۔ فلسطین میں کام کرنے والے قریبا تمام ہی گولڈ کارخانے ان تمام مراحل کو استعمال کرتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ماہرین کسی بھی خام مال میں سونے کی مقدار کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ کام بھی باریک بینی اور جدید آلات کی مدد سے کیا جاتا ہے۔
پھر سونے اور دیگر دہاتوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ بھی کافی پیچیدہ کام ہے۔ سونے کو اس مرحلے سے گذارنے کے لیے کیمیائی تعاملات سے گذارا جاتا ہے جسے پیشے کے اعتبار سے 999 کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔
صہیونی ریاست سے معاشی آزادی
فلسطینی کاروباری شخصیت اور ملک میں سونے کے سب سے بڑے تاجر احمد القواسمی کا کہنا ہے کہ ہمارا مقصد صرف کاروبار کرنا ہی نہیں بلکہ ہم صہیونی ریاست سے معاشی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلسطینی قوم سونے کو خالص بنانے اور جیولری کی تمام اقسام کی تیاری میں صہیونی ریاست کی محتاج نہ رہے اور ہم ہراعتبار سے صہیونی ریاست سے آزاد ہوجائیں۔
انہوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے الخلیل کے سونے کے تاجر کافی حد تک معاشی طور پرخود مختار ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم خالص سونے کی تلاش کے لیے جو آلات، مشینیں اور ٹکنالوجی استعمال کررہے ہیں وہ اس وقت یورپ اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملکوں کے پاس ہے۔ ہم ایک ہفتے میں مختلف مراحل کے دوران خام مواد سے خالص سونا حاصل کرلیتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں احمد القواسمی کا کہنا تھا کہ الخلیل میں سونا صاف کرنے کے جتنے بھی کارخانے قائم کیے گئے وہ سب ماحول دوست ہیں۔ ان کارخانوں سے نکلنے والا فاضل مواد ماحول کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ مضر صحت مواد کو پہلے ہی الگ کرلیا جاتا ہے۔ کارخانے سے خارج ہونے والے بخارات اور آلودہ پانی کی تلفی کا معقول انتظام موجود ہے۔ ہماری یہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے کہ کارخانوں کو ماحول دوست بنا دیا گیا ہے۔
احمد القواسمی کا کہنا تھا کہ ان کے کارخانے میں 33 مرد وخواتین ماہرین کام کرتے ہیں۔ وہ سب تعلیم یافتہ اور پیشہ ور ماہرین ہیں جنہوں نے عرب ممالک اور علاقائی ملکوں سے اپنے متعلقہ شعبے میں تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔