چهارشنبه 30/آوریل/2025

’شیر قبلہ اول‘ ۔۔۔ سعادت کی زندگی شہادت کی موت!

منگل 11-اکتوبر-2016

اتوار 9 اکتوبر 2016ء کو مقبوضہ بیت المقدس میں غاصب صہیونی فوجیوں کا جرات اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے فلسطینی بطل حریت الحاج مصباح ابو صبیح قبلہ اول کے دفاع میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہداء فلسطین کی کڑی میں شامل ہو گئے۔ شہید نے حقیقی معنوں میں سعادت کی زندگی پائی اور اپنی خواہش اور منشاء کے مطابق شہادت کی موت سے ہمکنار ہو کرجنت ابدی کے مکین ہو گئے۔

بیت المقدس میں دو غاصب صہیونی فوجیوں کو جنہم واصل اور کئی کو زخمی کرتے ہوئے خود بھی جام شہادت نوش کرنے والے چالیس سالہ فلسطینی ابو صبیح کو اس کے جاننے والے ’شیر اقصیٰ‘ کے نام سے جانتے تھے۔ ابو صبیح نے سن شعور کو پہنچنے کے بعد اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قبلہ اول کی خدمت اور اس کے دفاع میں صرف کیا۔ لڑکپن، جوانی اور اب ڈھلتی عمرمیں اپنی شہادت سے قبل تک وہ مسجد اقصیٰ کے مرابط، محافظ اور سپاہی رہے۔ بیت المقدس کا باشندہ ہونا ہی ان کے لیے کم باعث عزت و افتخار نہ تھا۔ وہ تو قبلہ اول کے پڑوسی تھی اور انہوں نے اپنے ہمسائے میں اللہ کے مقدس گھر کی حفاظت ونگہبانی کا حق ادا کیا۔ دعا ہے کہ اللہ شہید کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس کی نعمتوں سے بہرمند فرمائے اور ان کی شہادت کو اپنے دربار گوہربار میں شرف قبولیت بخشے۔

شہید ’شیر اقصیٰ‘ کے دوست اقارب کہتے ہیں کہ ابو صبیح کو مسجد اقصیٰ سے بے پناہ محبت تھی۔ یہ ان کے محبت و اشتیاق ہی کا عالم تھا وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت قبلہ اول میں بسر کرتے۔ مسجد کی صفائی اور اس کے دیگر امور میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صہیونیوں کے حلق کا کانٹا بن گئے۔ اسرائیلی پولیس نے انہیں پہلے مسجد اقصیٰ سے بے دخل کیا۔ یہ بے دخلی بار بار رہی۔ اس دوران گرفتاریاں اور جیلوں میں ڈالے جانے کی صعوبتیں بھی اٹھائیں مگر ان کا قبلہ اول سے اشتیاق کم نہ ہوپایا بلکہ اسرائیلی انتقامی کارروائیاں ان کی مسجد اقصیٰ کے لیے محبت میں اضافے کا باعث بنتی چلی گئیں۔ صہیونی پولیس نے شیر اقصیٰ کو چار ماہ تک قید میں رکھا۔ ان پر اس کے سوا اور کوئی الزام نہیں تھا کہ وہ مسجد اقصیٰ کے پنچ وقتہ نمازی ہیں۔

انہیں سنہ 2015ء میں قبلہ اول میں باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔  کئی ماہ تک پابند سلاسل رکھنے کے بعد چند روز کے لیے رہائی ملی تھی کہ صہیونی پولیس نے ان پر ایک اور الزام تھوپ دیا اور کہا گیا کہ انہوں نے مسجد اقصیٰ کے باب الحطہ کے قریب ایک اسرائیلی پولیس اہلکار پر تشدد کیا ہے۔ حالانکہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا۔ یہ محض ایک بہانہ تھا تاکہ انہیں دوبارہ گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جا سکے۔ چنانچہ 2015ء میں انہیں دوبار گرفتار کیاگیا۔ چار ماہ تک پابند سلاسل رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔ چند ہفتے قبل ان کی گرفتاری کی دوبارہ کوشش کی گئی مگر وہ اسرائیلی فوج کے ہاتھ نہیں آسکے۔ صہیونی پولیس نے ابو صبیح کے اہل خانہ پران کی پولیس کو حوالگی کے لیے دباؤ ڈالا۔ آخر کار ابو صبیح خود میدان میں نکلے، گرفتاری دینے کے لیے نہیں بلکہ شہادت کے لیے نکلے۔ انہوں نے بندوق اٹھائی اور قبلہ اول کی بے حرمتی کرنے والی ناپاک صہیونی فوجیوں پر گولی چلا دی۔ گولیاں لگنے سے دو صہیونی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ قابض فوج کی جوابی فائرنگ سے ابو صبیح بھی قبلہ اول پراپنی جان قربان کرگئے۔

شہید کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ابو صبیح کی مسلسل پانچ بار گرفتاری اور رہائی ہوئی۔ آخر کا اسرائیلیوں نے انہیں ایک ماہ کے لیے بیت المقدس سے بھی بے دخل کرنے کا حکم صادر کیا جب کہ ان کے مسجد اقصیٰ میں داخلے پر چھ ماہ کی پابندی عاید کی گئی تھی۔

شہر بدری کے فیصلے کے بعد ابو صبح نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ پرانہوں نے اپنی آخری پوسٹ پر لکھا کہ ’’کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ مجھے قبلہ اول سے کتنی محبت اور اشتیاق ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں پوری زندگی قبلہ اول کو دیکھتا رہوں اور اس کی مٹی پر سجدہ ریز رہوں۔ اس کی مٹی کو چوموں اور اسی مٹی کو ساتھ لیے دنیا سے رخصت ہوں۔ مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ جن ظالموں نے قبلہ اول پرقبضہ کیا ہے وہ مجھے میرے محبوب مقام سے دور رکھیں گے۔ میں نے قبلہ اول کے لیے چار ماہ کی جیل کاٹی۔ میں صرف یہ کہتا کہ اللہ کی قسم میری پوری زندگی، عمر اور مال دولت سب کچھ قبلہ اول پر فدا ہو۔ اگرچہ میرا جسم قبلہ اول تک نہیں پہنچ رہا۔ میری نگاہیں اسے دیکھ کر ٹھنڈی نہیں ہو رہی ہیں مگر میری روح تو ہروقت آزاد ہے جو قبلہ اول کے پاس ہی ہے۔ میں نے اپنے محبوب مقام کو ایک لمحہ کے لیے بھی فراموش نہیں کیا۔ قبلہ اول  میرا عشق اور میری محبت ہے۔ میں اپنی موت تک اس سے محبت کرتا رہوں گا‘۔

شہید کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ابو صبیح کو سنہ 2014ء میں اس وقت بھی حراست میں لیا گیا تھا جب یہودی دہشت گردوں نے ابو خضیر نامی ایک فلسطینی بچے کو اغواء کے بعد وحشیانہ تشدد کرکے شہید کردیا تھا اور اس کا جسد خاکی نذرآتش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر مشتعل ہونے والے فلسطینیوں میں ابو صبیح بھی شامل تھے جنہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر ایک نہتے بچے کے وحشیانہ قتل کی شدید مذمت کی تھی۔

اسرائیلی پولیس کی طرف سے آخر میں اس کے خلاف جو فرد جرم تیار کی تھی اس میں 14 مختلف الزامات عاید کیے گئےتھے۔ جن میں آٹھ الزامات سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیل کے خلاف حملوں پر اکسانے سے متعلق تھے۔

شہید کی صاحبزادی کے ایمان افروز جذبات

شہید ابو صبیح کی بیٹی ایمان ابو صبیح نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے والد کی شہادت پر کوئی دکھ نہیں بلکہ ہمیں خوشی ہے کہ انہوں نے اپنی جان قبلہ اول پرقربان کرتے ہوئے اللہ کے ہاں ہم سب کی سفارش کا راستہ چنا ہے۔ ان کی شہادت سے دنیاوی طور پر ہمیں ان کی کمی محسوس ہو گی مگر وہ ہمارے لیے آخرت کی زندگی میں اثاثہ ثابت ہوں گے۔ میرے والد نے جو راستہ چنا ہے وہ ہم سب کے لیے باعث فخر ہے۔ خیال رہے کہ صہیونی فوجیوں نے شہید ابو صبیح کے گھر پرچھاپہ مار کرایمان ابو صبیح اور اس کے دادا کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ شہید کے کئی دوسرے قریبی رشتہ دار بھی گرفتار کر لیے گئے ہیں۔

شہید کی صاحبزادی نے اپنے ایمان افروز تاثرات میں کہا کہ میرے والد چاہتے تو گرفتار بھی دے سکتے تھے۔ میں نے انہیں یہ کہا تھا کہ اگر اسرائیلی آپ کو گرفتار کرلیں تو ہمیں آپ سے جیل میں ملاقات کا موقع شاید ملے گا مگر انہوں کہ جواب دیا تھا کہ آپ میری گرفتاری کی توقع نہ رکھیں۔ میں نے شہادت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ والد نے اپنی شہادت سے قبل مجھے وصیت کہ میں اپنی توجہ اپنی تعلیم پرمرکوز رکھوں۔ کیونکہ اعلیٰ تعلیم ہی کے ذریعے میں قبلہ اول  اور پوری قوم کی بہتر خدمت انجام دے سکتی ہوں۔

ایمان نے بتایا کہ ہمارے والد نے ہم سب سے رخصت لیتے اور آخری ملاقات کے وقت ہمیں نصیحت کی ہم قبلہ اول میں نماز کے لیے ضرور جائیں۔ ہم سے وعدہ لیا۔ میری چھوٹی بہن کو بھی نماز کی تاکید کی۔ چھوٹی بھائی کی پیشانی پر بوسہ دیا اور سب کو سلام کہہ کر گھر سے نکل گئے۔ ہمیں یقین نہیں تھا کہ آج ہم اپنے والد کی شہادت کی خبر سنیں گے۔ کچھ ہی دیر کے بعد ہمار گھر کا محاصرہ کیا جا چکا تھا۔ صہیونی فوج ہمارے گھر میں داخل ہوئی تمام بہن بھائیوں، والدہ اور دیگر اقارب کو ایک کمرے میں بند کردیا۔ ہمیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ تمہارے والد کی میت ہمارے پاس ہے۔ والد کی شہادت پر میرے چھوٹےبہن بھائی سخت دل گرفتہ تھے مگر میری ماں، دادا اور دادی نے ہم سب کی ہمت بندھائی اور تسلی دی کہ شہید ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی