اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیت کے رنگ میں رنگنے کی سازشوں کے ضمن میں مسجد اقصیٰ کے قریب ایک بڑے یہودی معبد کی تعمیر پر کام شروع کر دیا ہے۔ دوسری جانب بیت المقدس کے مسلمان اور عیسائی مذہبی حلقوں نے یہودی عبادت گاہ کے قیام کی صہیونی منصوبہ بندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کے سنگین نتائج پر انتباہ کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق گذشتہ روز اسرائیلی بلدیہ اور دیگر یہودی اداروں نے مشترکہ طور پر مسجد اقصیٰ سے 200 میٹر مغربی سمت میں پرانے بیت المقدس کے قلب میں ’جوہر اسرائیل معبد‘ نامی ادارے کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ اس سے قبل اس معبد کا نقشہ جاری کیا جا چکا ہے۔
درایں اثناء بیت المقدس میں فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کی نمائندہ سپریم کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں ’جوہرہ اسرائیل معبد‘ کے قیام کی سازشوں کو القدس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی مقدس مقامات کے خلاف گہری سازش قرار دیا ہے۔
سپریم اسلامی ومسیحی کمیٹی کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے قریب ایک بڑے یہودی معبد کی تعمیر کا مقصد مسجد اقصیٰ کو سنگین خطرات سے دوچار کرنا ہے۔ یہودی معبد مسجد اقصیٰ کے وجود کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسرائیلی حکومت اور متنازع منصوبے پر کام فور طور پر روک دے۔
خیال رہے کہ دو روز قبل اسرائیلی بلدیہ نے مسجد اقصیٰ سے چند سو گز کے فاصلے پر ’جوہرہ اسرائیل‘ نامی ایک بڑی عبادت گاہ کا باضابطہ کام شروع کیا ہے۔ یہ معبد پرانے بیت المقدس کے وسط میں الشرف کالونی میکں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس معبد کی تعمیر سے مسجد اقصیٰ کی طرف آنے والے تمام راستوں پر فلسطینیوں کو آمد و رفت میں مشکلات پیش آئیں گی۔ یوں یہ معبد قبلہ اول کے خلاف ایک سنگین سازش قرار دیا جا رہا ہے۔
مزعومہ یہودی عبادت گاہ کے لیے 140 مربع میٹر کی جگہ مختص کی گئی ہے اور اس کی سات منزلیں تعمیر کی جائیں گی۔ یہ معبد دور عثمانی اور ممالیک کے دور میں تعمیر کی گئی مسلمانوں کی تاریخی عمارات کو منہدم کرکے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ پرانے زمانے میں یہاں پر ان کا ایک بڑا مذہبی مرکز ہوا کرتا تھا تاہم صہیونی اپنے اس دعوے کے ثبوت کے لیے شواہد فراہم نہیں کر سکے ہیں۔